شکوک و شبہات کے جواب

قرآن مجید اور احادیث کی روشنی میں حضرت علی علیہ السلام حق کے ساتھ ہے اور حق حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ ہے

 حضرت علی علیہ السلام اور قوت حافظہ:

بحار الانوار جلد نہم، میں سلیم بن قیس سے منقول ہے کہ میں نے حضرت علی علیہ السلام کو یہ کہتے ہوۓ سنا:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قرآن کریم کی جو بھی آیت نازل ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اس کی تعلیم دی اور مجھ سے لکھوائی۔ میں نے اپنے ہاتھ سے اسے لکھا۔ آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ہر آیت کی تاویل ، تفسیر، ناسخ و منسوخ اور محکم و متشابہ کی تعلیم دی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدا سے یہ دعا کی کہ وہ مجھے قرآن کے سمجھنے اور یاد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ میں کوئی بھی آیت نہیں بھولا اور نہ ہی لکھی ہوئی عبارت مجھ سے کبھی جدا ہوئی اللہ تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جس میں حلال و حرام، امرونہی اور اطاعت و معصیت کا جو بھی علم دیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ان تمام باتوں کی تعلیم دی اور میں نے انہیں یاد رکھا اور میں ایک حرف تک نہیں بھولا۔ پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر رکھا اور دعا کی کہ خدا میرے دل کو علم و فہم، حکمت و نور سے بھر دے ان میں سے میں کچھ بھی نہیں بھولا اور کوئی بھی بات میں نے کتابت کے بغیر نہیں چھوڑی۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یہ خبر دی تھی کہ خدا نے تمہارے متعلق میری دعا کو قبول کیا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام اور رحمدلی:

بحار الانوار جلد نہم میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا:
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سخت گرمی میں اپنے گھر واپس آئے تو آپ علیہ السلام نے دیکھا دروازے پر ایک عورت کھڑی تھی، اس نے آپ علیہ السلام سے کہا: میرے شوہر نے مجھ پر ظلم کیا ہے اور مجھے ڈرایا دھمکایا ہے اور اس نے قسم کھائی ہے کہ وہ مجھ پر ضرور تشدد کرے گا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: کنیز خدا ! کچھ دیر صبر کر ، تاکہ دن ٹھنڈا ہو جائے میں تیرے ساتھ چلوں گا۔
عورت نے کہا: جتنی دیر ہوگئی اس کا غصہ مزید تیز ہوگا۔ 
آپ علیہ السلام نے سر جھکایا پھر بلند کر کے فرمایا: ہمارے ہوتے ہوئے کسی پر کوئی ظلم نہیں کر سکتا پھر آپ علیہ السلام نے عورت سے پوچھا: تیرا گھر کہاں ہے؟
اس نے گھر کا پتا بتایا آپ علیہ السلام اس کے دروازے پر تشریف لے گئے اور دستک دی۔ ایک نوجوان باہر آیا آپ علیہ السلام نے اس پر سلام کیا اور پھر فرمایا: بندۂ خدا ! اپنی بیوی کے متعلق خدا کا خوف کھا۔ تم نے اسے دہشت زدہ کیا ہے اور گھر سے باہر نکالا ہے نوجوان جو کہ آپ علیہ السلام کو نہیں پہچانتا تھا نے کہا: اگر آپ علیہ السلام اس کے سفارشی ہیں تو میں اسے جلاؤں گا آخر آپ علیہ السلام کی سفارش کا کیا مطلب ہے؟
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: میں تجھے نیکی کا حکم دے رہا ہوں اور غلط کام سے روک رہا ہوں لیکن تو اپنی غلطی کو میرے سامنے دہرا رہا ہے۔
اتنے میں لوگ وہاں سے گزرے تو ہر شخص نے آپ علیہ السلام کو امیر المومنین کہہ کر سلام کیا جب نوجوان نے دیکھا کہ اس کے دروازے پر امیرالمؤمنین علیہ السلام کھڑے ہیں تو وہ آپ علیہ السلام کے قدموں پر گر پڑا اور کہنے لگا: مولا علی علیہ السلام! مجھے معاف کر دیں ، آج کے بعد میری بیوی جو کچھ کہے گی میں اس کا کہنا مانوں گا۔
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے تلوار نیام میں ڈالی اور خاتون خانہ سے فرمایا: کنیز خدا ! تم بے خوف ہو کر گھر میں جاؤ اور اپنے شوہر کی نافرمانی کرکے اسے طیش میں مت لانا۔
ابو الطفیل کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضرت علی علیہ السلام یتامیٰ کو بلا کر انہیں شہد کے ساتھ کھانا کھلاتے ہیں آپ علیہ اسلام کے اس طرز عمل کو دیکھ کر آپ علیہ السلام کے ایک صحابی نے کہا:
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے اس طرز عمل کو دیکھ کر آپ علیہ السلام کے ایک صحابی نے کہا: امیر المومنین علیہ السلام کے اس طرز عمل کی وجہ سے میری خواہش ہے کہ کاش میں بھی یتیم ہوتا اور آپ علیہ السلام کے دسترخوان پر شہد کے ساتھ کھانا کھاتا۔

حضرت علی علیہ السلام اور حق:

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
” اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہہ دیں کہ تمہارے رب کی طرف سے حق آ گیا پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے وہ کفر اختیار کرے۔”
سورۂ کہف آیت 29
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
“کیا وہ جو حق کی ہدایت کرتا ہے وہ اس امر کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کی اتباع کی جائے؟”
سورۃ یونس آیت 35
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ سے لوگوں کے اختلاف کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:
“تمہارے لئے اللہ کی کتاب اور حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کی پیروی ضروری ہے۔”
میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ سنا:
“حضرت علی علیہ السلام حق کے ساتھ ہے اور حق اس کے ساتھ ہے اور اس کی زبان پر ہے۔ حق ادھر پھرتا ہے جس طرف حضرت علی علیہ السلام پھرتا ہے۔”
حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ نے روز جمل حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ پر سلام کیا لیکن آپ سے بی بی سے گفتگو نہیں کی۔ اس وقت محمد بن ابی بکر رضی اللہ نے کہا کہ میں آپ کو اس خدا کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں جس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے کیا تو نے خود اپنی زبان سے مجھے یہ نہیں کہا تھا کہ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے ساتھ رہنا۔ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا:
“حق علی علیہ السلام کے ساتھ ہے اور علی علیہ السلام حق کے ساتھ ہے یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر نہ پہنچ جائیں۔”
بی بی نے کہا: جی ہاں، میں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ بات سنی تھی۔
اصبغ بن نباتہ کا بیان ہے کہ امام علی علیہ السلام فرمایا کرتے تھے:
“اس کے لئے تباہی ہے جو میری معرفت سے جاھل رہے اور میرے حق کو نہ پہچانے۔ آگاہ رہو، میرا حق ہی اللہ کا حق ہے اور اللہ کا حق میرا حق ہے۔”