اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
” آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہہ دیں کہ ہر شخص اپنی نیت کے مطابق عمل کرتا ہے۔”
علوم نفسیات کے ماہرین اور فلاسفہ کہتے ہیں: انسان سے جو اعمال و افعال سرزد ہوتے ہیں وہ دراصل اس کی نفسیات کے وہ آثار ہوتے ہیں جن پر اس کی تخلیق ہوتی ہے اور وہ وراثت و تربیت کے وہ اثرات مرتب ہوتے ہیں جو اس کی روح کی گہرائیوں میں پائے جاتے ہیں چناچہ تمام فضائل اور تمام رزائل تربیت اور وراثت کا ثمر ہوتے ہیں۔ ہماری آج کی گفتگو کا عنوان حضرت امام علی علیہ السلام کے وہ نفسانی فضائل ہیں جن میں آپ علیہ السلام ممتاز دکھائی دیتے ہیں ہم نے فضائل نفسانیہ کی اس لیے گفتگو کی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے کچھ فضائل ایسے بھی ہیں جن کا تعلق آپ علیہ السلام کی کدوکاوش سے نہیں ہے، مثلاً آپ علیہ السلام کا عظیم نسب، بیت اللہ میں ولادت ، آپ علیہ السلام کا جمال اور قوت وغیرہ آپ علیہ السلام کے ایسے مناقب ہیں جن کا تعلق آپ علیہ السلام کے اختیار میں نہیں تھا اس کے بجائے ہم صرف آپ علیہ السلام کے ان فضائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن کا تعلق آپ علیہ السلام کی محنت و کاوش سے تھا مثلاً سخاوت، عفودرگزر، زہد اور عبادت وغیرہ یہ صفات آپ علیہ السلام کے فضائل اور شریف نفس کے پیدا کردہ ہیں اور اللہ تعالی نے اسی چیز کو یوں بیان فرمایا:
“اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہر شخص خواہ مومن ہو یا کافر وہ اپنی فطرت و طبیعت کے مطابق عمل کرتا ہے۔”
اور کسی شاعر نے اس حقیقت کو یوں بیان کیا تھا۔
“ہم نے حکومت حاصل کی تو ہم نے عفو و درگزر کو اپنایا لیکن جب تم نے حکومت حاصل کی تو خون کی ندیاں بہنے لگیں۔ ہمارے اور تمہارے درمیان یہی فرق کافی ہے ہر برتن سے وہی ٹپکتا ہے جو اس میں ہوتا ہے۔”
آپ علیہ السلام کا بیت اللہ میں پیدا ہونا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیر نگرانی پرورش پانا وغیرہ یہ سب وہ عوامل تھے جنہوں نے آپ علیہ السلام کی شخصیت کو سنوارنے میں بھر پور مدد کی۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تربیت کا یہ اثر مرتب ہوا کہ آپ علیہ السلام عدالت انسانی کی آواز بن گئے اور شجاعت و جوانمردی اور رحم و کرم اور سخاوت میں ضرب المثل قرار پائے۔ بلند نفوس کی خواہشات ہمیشہ پست نفوس سے مختلف ہوتی ہیں اور وہ ہمیشہ اپنے انسانی ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہیں اور خود بھوکے رہ کر دوسروں کو کھلاتے ہیں اور ایثار کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نفوس میں معرفت الٰہی مستقر ہوتی ہے اور رگ و ریشہ میں محبت الٰہی مخلوط ہوتی ہے۔ وہ ان گھڑیوں کو اپنی قیمتی گھڑیاں سمجھتے ہیں جن میں وہ اپنے پروردگار سے محو مناجات ہوتے ہیں اور خدا سے راز و نیاز کرتے ہوئے کبھی تھکاوٹ محسوس نہیں کرتے۔ یہاں ایک اور نکتہ کی طرف اشارہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جب کوئی انسان اپنے اندر نقص محسوس کرتا ہے تو وہ اس کی تلافی اعلیٰ لباس، ماکولات و مشروبات اور بلند و بالا عمارات سے کرتا ہے اور اس طرح وہ اپنے وجدان و ضمیر کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے جبکہ اولیائے خدا میں کوئی نقص نہیں ہوتا لہٰذا اپنی فضولیات سے کوئی لگاؤ نہیں ہوتا اسی لئے وہ سادہ زندگی کو پر تعیش زندگی پر ترجیح دیتے ہیں ان کی پوری زندگی سادگی اور زہد کا نمونہ ہوتی ہے انہیں لذیذ کھانوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتے اور وہ دنیا کے حسن و جمال کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ انہیں اپنے نفوس کے کامل ہونے کا یقین ہوتا ہے لہٰذا وہ دنیاوی زیب و زینت کی طرف راغب نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم انبیاء و ائمہ علیہ السلام کی سادہ ترین زندگی پر نظر ڈالتے ہیں اور ان کے زہد کا مشاہدہ کرتے ہیں تو ہمیں اس پر تعجب نہیں ہوتا۔
ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ کے مقدمہ میں لکھا ہے:
“میں اس عظیم انسان کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں جس کی فضیلت اور عظمت کا اعتراف اس کے دشمنوں نے کیا ہو اور وہ دشمنی کے باوجود اس کے فضائل و مناقب کو چھپانے سے عاجز رہے ہوں؟”
ہم جانتے ہیں کہ بنی امیہ نے مشرق و مغرب پر حکومت کی اور انھوں نے آپ علیہ السلام کے نور کو بجھانے کی ہر ممکن کوشش کی اور انہوں نے آپ علیہ السلام کی شخصیت کو عیب دار بنانے کے لئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا تھا اور انھوں نے منبروں پر آپ علیہ السلام پر سب وشتم رواج دیا اور آپ علیہ السلام کے مدح کرنے والوں پر عرصہ حیات تنگ کیا تھا اور آپ علیہ السلام سے محبت کرنے والوں کو انہوں نے قید کیا اور انہیں قتل کیا اور انہیں آپ علیہ السلام کے فضائل بیان کرنے سے روکا اور حد یہ ہے کہ لوگوں کو منع کیا گیا کہ اپنے آلات کا نام “علی” نہ رکھیں، مگر اس کے باوجود خدا نے آپ علیہ السلام کی عزت و عظمت میں اضافہ کیا اور جس طرح سے بھی کستوری کو چھپایا جائے تو اس کی خوشبو چھپنے میں نہیں آتی بعینہ اسی طرح سے آپ علیہ السلام کے فضائل کی خوشبو اتنی زیادہ تھی کہ چھپانے والے اس کو چھپانے میں ناکام رہے جس طرح ہتھیلی سے سورج کو چھپایا نہیں جا سکتا اسی طرح سے بنی امیہ بھی شمس امامت کو چھپانے میں ناکام رہے اور اگر چمگادڑ سورج کے وجود کا انکار کرے تو اس کی روشنی چھپ نہیں جاتی۔ اسی طرح سے شپرہ افراد نے آپ علیہ السلام کے فضائل سے آنکھیں موند لیں، لیکن پورے جہان کی آنکھوں نے آپ علیہ السلام کے نور کا ادراک کیا۔
میں اس عظیم الشان کے متعلق کیا کہہ سکتی ہوں جس پر فضیلت کی انتہا ہوتی ہے اور ہر فرقہ ان سے انتساب کو اپنے لئے لائق فخر سمجھتا ہے۔ آپ علیہ السلام کی ذات فضائل کا مصدر و منبع ہے آپ علیہ السلام کے بعد خدا نے اسے عزت و عظمت بخشی جس نے آپ علیہ السلام کے نقش قدم کی پیروی کی اگر تم امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے خصائص خلقت اور فضائل نفسانی و دین کی طرف نگاہ کرو گے تو تمہیں معلوم ہو جائے گا اور آپ علیہ السلام ہر فضیلت میں پوری دنیا سے پیش پیش ہیں۔
حضرت علی علیہ السلام اور یقین:
بحار الانوار جلد نہم میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا: حضرت علی علیہ السلام کا ایک غلام تھا جس کا نام قنبر رضی اللہ تھا اسے آپ علیہ السلام نے والہانہ محبت تھی حضرت علی علیہ السلام جہاں جاتے وہ تلوار لے کر اپنے علیہ السلام کے پیچھے چلتا۔ ایک رات آپ علیہ السلام کہیں جانے لگے تو قنبر رضی اللہ حسب عادت آپ علیہ السلام کے پیچھے روانہ ہوا۔ حضرت علی علیہ السلام نے آواز دے کر فرمایا: قنبر رضی اللہ! کیا بات ہے؟
قنبر رضی اللہ نے عرض کیا: مولا علی علیہ السلام! زمانہ آپ علیہ السلام کا دشمن ہے اسی لیے میں آپ علیہ السلام کی حفاظت کے لئے آپ علیہ السلام کے پیچھے آ رہا ہوں۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا: تم ممجھے آسمان والوں سے بچا لو گے یا زمین والوں سے؟
قنبر رضی اللہ نے عرض کیا: میں زمین والوں سے آپ علیہ السلام کی حفاظت کروں گا۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا: زمین والے مجھے اس وقت کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے جب تک آسمانوں کے مالک کا اذن شامل نہ ہو ، لہٰذا تم واپس چلے جاؤ۔
قنبر رضی اللہ واپس چلے گئے۔ جنگ صفین میں آپ علیہ السلام سے یہ کہا گیا کہ آپ علیہ السلام اپنے لئے محافظ مقرر کریں ہمیں اندیشہ ہے کہ کوئی لعین آپ علیہ السلام کو شہید نہ کر دے۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا: موت ہی سب سے بڑی محافظ ہے ہر انسان کے ساتھ خدا نے کچھ فرشتے مقرر کیے ہیں جو کہ اسے کسی کنوئیں میں گرنے سے بچاتے ہیں اور دیوار کے نیچے آنے سے اور کسی مصیبت میں مبتلا ہونے سے بچاتے ہیں اور جب مقرر وقت آجاتا ہے تو وہ اس سے ہٹ جاتے ہیں جب میرا مقرر وقت آئے گا تو دنیا کا بدبخت ترین شخص اٹھے گا اور وہ میری ریش کو میرے سر کے خون سے خضاب کرے گا۔ یہ ایک عہد ہے اور یہ ایسا وعدہ ہے جس کی خلاف ورزی نہیں ہو سکتی۔
Add Comment