حضرت علی علیہ السلام خطابت میں اپنی مثال آپ تھے اگر کسی نے آپ علیہ السلام کی خطابت کے جوہر دیکھنے ہوں تو اسے چاہیے کہ وہ توحید الہی پر آپ علیہ السلام کے خطبات پڑھے۔خطبہ شقشقیہ کا مطالعہ کرے اور خطبہ ہدایت ، ملاحم، لؤلؤہ ، عزاء، قاصعہ ، افتخار، اشباح ، الدرۃ الیتیمہ، اقالیم، وسیلہ ، طالوتیہ، قصبیہ، سلمانیہ، ناطقہ، دامفہ اور فاصفحہ کا مطالعہ کرے، بلکہ پوری نہج البلاغہ کا مطالعہ کرے۔ اس کے علاوہ اسماعیل بن مہران کی جمع کردہ کتاب خطب امیر المومنین علیہ السلام کا مطالعہ کرے۔
سید رضی رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہی خوب کہا تھا:
“امیر مومنین حضرت علی علیہ السلام فصاحت کا گھاٹ اور بلاغت کام منبع تھے اور آپ علیہ السلام نے ہی فصاحت و بلاغت کو عروج بخشا تھا آپ علیہ السلام نے ہی فصاحت و بلاغت کے قوانین مقرر کیے تھے۔”
جاحظ کتاب الفرہ میں لکھتے ہیں: حضرت علی علیہ السلام کی فصاحت و بلاغت کے لئے ان کے اس مکتوب کا مطالعہ کریں جو انہوں نے معاویہ کے نام لکھا تھا مکتوب کے الفاظ یہ ہیں:
غرك غرك فصا رقصا و ذلك ذلك فاحش فعلك فعلك تهدا بهذا
آپ علیہ السلام کے کلمات قصار میں ان مختصر سے جملوں کا مطالعہ کرتے ہیں:
“جو ایمان لایا اسے امن ملا۔”
“دنیا دھوکہ دیتی ہے، نقصان پہنچاتی ہے، چلی جاتی ہے۔”
اپنے سیاسی رقیبوں کے متعلق جامع تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:
“انہوں نے فجور کاشت کیا، دھوکے کے پانی سے اس کی آبیاری کی اور ہلاکت کی فصل کاٹی۔”
ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں لکھتے ہیں:
جہاں تک فصاحت کا تعلق ہے تو آپ علیہ السلام امام الفصحاء اور سید اہلبلغاء تھے اور آپ علیہ السلام کے کلام کے متعلق دنیا کے ادیبوں کا متفقہ فیصلہ ہے۔
“وہ کلام خالق سے نیچے اور کلام مخلوق سے بلند و بالا ہے۔”
لوگوں نے خطابت اور کتابت کا اندازہ آپ علیہ السلام سے ہی سیکھا ہے۔
عبد الحمید بن یحییٰ کا قول ہے کہ میں نے امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے ستر خطبات یاد کئے اور ان کی برکت سے میں سب سے بڑا ادیب بن گیا۔
نباتہ کا قول ہے کہ میں نے خطابت حضرت علی علیہ السلام کے کچھ خطبات یاد کیے ، جتنا انہیں خرچ کیا اور کثرت پیدا ہوئی میں نے مواعظ حضرت علی علیہ السلام کی ایک سو فصول یاد کی ہیں۔
محق بن ابی محق معاویہ کے پاس گیا تو اس نے پوچھا کہ کہاں سے آ رہے ہو؟
اس نے خوشامد کرتے ہوئے کہا: میں عاجز ترین شخص کے ہاں سے تیرے پاس آیا ہوں۔
معاویہ نے کہا: تجھ پر افسوس، خدا کی قسم! قریش کے لیے فصاحت کی بنیاد ہی حضرت علی علیہ السلام نے رکھی ہے۔
حضرت علیہ السلام کا فصاحت میں کوئی ثانی نہیں اور بلاغت میں کوئی آپ علیہ السلام کا مثیل نہیں ہے۔ آپ علیہ السلام کے خطبات کا دسواں حصہ بھی صحابہ کے لیے مدون نہیں کیا گیا۔
ابو عثمان جاحظ نامور ادیب اور نقاد تھے انہوں نے اپنی کتاب ” البیان و التبیین” میں آپ علیہ السلام کی فصاحت و بلاغت پر جامع بحث کی ہے۔
اس خطبہ میں چمکادڑ کی عجیب و غریب خلقت کا ذکر فرمایا ہے:
“تمام حمد ہے اس اللہ کے لئے ہے جس کی معرفت کی حقیقت ظاہر کرنے سے اوصاف عاجز ہیں اور اس کی عظمت و بلندی نے عقلوں کو روک دیا ہے جس سے وہ اس کی سرحد فرمانروائی تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں پاتیں۔ وہ اللہ اقتدار کا مالک ہے اور سراپا حق اور حقوق کا ظاہر کرنے والا ہے وہ ان چیزوں سے بھی زیادہ اپنے مقام پر ثابت و آشکارا ہے کہ جنہیں آنکھیں دیکھتی ہیں، عقلیں اس کی حد بندی کر کے اس تک نہیں پہنچ سکتیں کہ وہ دوسروں سے مشابہ ہو جائے اور نہ ہم اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ کسی چیز کے مانند ہو جائے۔ اس نے بغیر نمونہ و مثال کے اور بغیر کسی مشیر کار کے مشورہ کے اور بغیر کسی معاون کی امداد کے مخلوقات کو پیدا کیا۔ اس کے حکم سے مخلوق اپنے کمال کو پہنچ گئی اور اس کی اطاعت کے لئے جھک گئی اور بلا توقف لبیک کہی اور بغیر کسی نزاع و مزاحمت کے اس کی مطیع ہو گئی۔ اس کی صنعت کی لطافتوں اور خلقت کی عجیب و غریب کارفرمائیوں میں کیا کیا گہری حکمتیں ہیں کہ جو اس نے ہمیں چمگادڑوں کے اندر دکھائی دی ہیں کہ جن کی آنکھوں کو دن کا اجالا سیکٹر دیتا ہے حالانکہ وہ تمام آنکھوں میں روشنی پھیلانے والا ہے اور اندھیرا ان کی آنکھوں کو کھول دیتا ہے۔ حالانکہ وہ ہر زندہ شے کی آنکھوں پر انقلاب ڈالنے والا ہے اور کیونکہ چمکتے ہوئے سورج میں ان کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں کہ وہ اس کی نور پاش شعاعوں سے مدد لے کر اپنے راستوں پر آ جا سکیں اور نور آفتاب کے پھیلاؤ میں اپنی جانی پہچانی ہوئی چیزوں تک پہنچ سکیں۔ اس نے تو اپنی ضو پاشیوں کی تابش سے انہیں نور کی تجلیوں میں بڑھنے سے روک دیا ہے اور ان کے پوشیدہ ٹھکانوں میں انہیں چھپا دیا ہے کہ وہ اس روشنی کے اجالوں میں آ سکیں۔ دن کے وقت تو وہ اس طرح ہوتی ہیں کہ ان کی پلکیں جھلک کر آنکھوں پر لٹک آتی ہیں اور تاریکی شب کو اپنا چراغ بنا کر رزق کے ڈھونڈنے میں اس سے مدد لیتی ہیں۔ رات کی تاریکیاں ان کی آنکھوں کو دیکھنے سے نہیں روکتیں اور نہ اس کی گھٹا ٹوپ اندھیریاں راہ پیمائیوں سے باز رکھتی ہیں مگر جب آفتاب اپنے چہرے سے نقاب ہٹاتا ہے اور دن کے اجالے ابھر آتے ہیں اور سورج کی کرنیں سوسمار کے سوراخ کے اندر تک پہنچ جاتی ہیں تو وہ اپنی پلکوں کو آنکھوں پر جھکا لیتی ہیں اور رات کی تاریکیوں میں جو معاشحاصل کی ہے اسی پر اپنا وقت پورا کر لیتی ہے سبحان اللہ کہ جس نے رات ان کے کسب معاش کے لیے اور دن آرام و سکون کے لیے بنایا ہے اور ان کے گوشت ہی سے ان کے پر بنائے ہیں اور جب اڑنے کی ضرورت ہوتی ہے تو انہی پروں سے اونچی ہوتی ہیں گویا کہ وہ کانوں کی لویں ہیں کہ نہ ان میں پر وبال ہیں اور نہ کریاں، مگر تم ان کی رگوں کی جگہ کو دیکھو گے کہ اس کے نشان ظاہر ہیں اور اس میں دو پر سے لگے ہوئے ہیں کہ جو نہ اتنے باریک ہیں کہ پھٹ جائیں اور نہ اتنے موٹے ہیں کہ بوجھل ہو جائیں کہ اڑا نہ جا سکے وہ اڑتی ہیں تو بچے ان سے چمٹ پڑتے ہیں اور جب وہ نیچے کی طرف جھکتی ہیں تو بچے بھی جھک پڑتے ہیں اور جب وہ اونچی ہوتی ہیں تو بچے بھی اونچے ہو جاتے ہیں اور اس وقت تک الگ نہیں ہوتے جب تک ان کے اعضاء میں مضبوطی نہ آجائے اور بلند ہونے کے لئے ان کے پر ان کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہ ہو جائیں۔ وہ اپنی زندگیوں کی راہوں پر اپنی مصلحتوں کو پہچانتے ہیں۔ پاک ہے وہ خدا کہ جس نے بغیر کسی نمونہ کے جو اس سے پہلے کسی نے بنایا ہو ان تمام چیزوں کو پیدا کرنے والا ہے۔”
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی خطابت کے جوہر کا مشاہدہ کرنے کے لیے حضرت علی علیہ السلام کے اس خطبہ کا بھی ملاحظہ ضرور فرمائیں اس خطبہ میں مور کی عجیب و غریب خلقت اور جنت کے دلفریب مناظر پر بحث کی گئی ہے۔
“قدرت نے ہر قسم کی مخلوق کو، وہ جاندار ہو یا بے جان، ساکن ہو یا متحرک، عجیب و غریب آفرینش کا جامہ پہنا کر ایجاد کیا ہے اور اپنی لطیف صنعت اور عظیم قدرت پر ایسی واضح نشانیاں شاہد بنا کر قائم کی ہیں کہ جن کے سامنے عقلیں اس کی ہستی کا اعتراف اور اس کی فرمابرداری کا اقرار کرتے ہوئے سر اطاعت خم کر چکی ہیں اور اس کی یکتائی پر یہی عقل کی تسلیم کی ہوئی اور اس کی خالق بے مثال ہونے پر مختلف شکل و صورت کے پرندوں کی آفرینش سے ابھری ہوئی دلیلیں ہمارے کانوں میں گونج رہی ہیں وہ پرندے جن کو اس نے زمین کے گڑھوں اور دروں کے شگافون اور مضبوط پہاڑوں کی چوٹیوں پر بسایا ہے جو مختلف طرح کے پر و بال اور اور جداگانہ شکل و صورت والے ہیں۔ جنہیں تسلط الٰہی کی باگ ڈور میں گھمایا پھرایا جاتا ہے اور کو کشادہ ہوا کی وسعتوں اور کھلی فضاؤں میں پروں کو پھڑ پھڑاتے ہیں انہیں جب کہ یہ موجود نہ تھے عجیب و غریب ظاہری صورتوں سے آراستہ کر کے پیدا کیا اور گوشت و پوست میں ڈھکے ہوئے جوڑوں کے سروں سے ان کے جسموں کی ساخت قائم کی۔ ان میں سے بعض وہ ہیں جنہیں ان کے جسموں کے بوجھل ہونے کی وجہ سے فضا میں بلند ہو کر تیز پروازی سے روک دیا ہے اور انہیں ایسا بنایا ہے کہ وہ زمین سے کچھ تھوڑے ہی اونچے ہو کر پرواز کر سکیں اس نے اپنی لطیف قدرت اور باریک صنعت سے ان قسم قسم کے پرندوں کو مختلف رنگوں سے ترتیب دیا ہے چنانچہ ان میں سے بعض ایسے ہیں جو ایک ہی رنگ کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں یوں کہ جس رنگ کی ان میں آمیزش نہیں کی گئی اور بعض اس طرح رنگ میں ڈبوئے گئے ہیں کہ جس رنگ کا طوق انہیں پہنا دیا گیا ہے وہ اس رنگ سے نہیں ملتا جس سے خود رنگین ہیں ان سب پرندوں سے زائد عجیب الخلقت مور ہے کہ اللہ نے جس کے اعضاء کو موزونیت کے محکم ترین سانچے میں ڈھالا ہے اس کے رنگوں کو ایک حسین ترتیب سے مرتب کیا ہے۔ یہ حسن و توازن ایسے پروں سے ہے کہ جن کی جڑوں کو ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے جب وہ اپنی مادہ کی طرف بڑھتا ہے تو اپنی لپٹی ہوئی دم کو پھیلا دیتا ہے اور اسے اس طرح اونچا لے جاتا ہے کہ اس کے سر پر سایہ فگن ہو کر پھیل جاتی ہے گویا وہ مقام دارین کی اس کشتی کا بادبان ہے جسے اس کا ملاح ادھر ادھر موڑ رہا ہے۔ وہ اس کے رنگوں پر اتراتا ہے اور اس کی جنبشوں کے ساتھ جھومنے لگتا ہے اور مرغیوں کی طرح جفتی کھاتا ہے اور اپنی مادہ کو حاملہ کرنے کے لیے جوش و ہیجان میں بھرے ہوئے نروں کی طرح جوڑ کھاتا ہے میں اس بیان کے لیے مشاہدہ کو تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں۔ اس شخص کی طرح نہیں کہتا جو کسی کمزور سنکا حوالہ دے رہا ہوںل۔ گمان کرنے والوں کا یہ صرف وہم و گمان ہے کہ وہ اپنے گوشہ ہائے چشم کے بہائے ہوئے اس آنسو سے اپنی مادہ کو انڈوں پر لاتا ہے کہ جو اس کی پلکوں کے دونوں کناروں میں آ کر ٹھہر جاتا ہے اور مورنی اسے پی لیتی ہے اور پھر وہ انڈے دینے لگتی ہے اور اس پھوٹ کر نکلنے والے آنسو کے علاوہ یوں نر اس سے جفتی نہیں کھاتا اگر ایسا ہو تو بھی ان کے خیال کے مطابق کوے کی اپنی مادہ کو پوٹے سے دانا پانی بھر کر انڈوں پر لانے سے زیادہ تعجب چیز نہیں ہے تم اگر غور سے دیکھو گے تو اس کے پروں کی درمیانی تیلیوں کو چاندنی کی سلائیاں تصور کرو گے اور ان پر جو عجیب و غریب بالے بنے ہوئے ہیں اور سورج کی شعاعوں کے مانند جو پر و بال اگے ہوئے ہیں انہیں زردی میں خالص سونا اور سبزی میں زمرد کے ٹکڑے خیال کرو گے اگر تم اسے زمین کی اگائی ہوئی چیزوں سے تشبیہ دو گے تو یہ کہو گے کہ وہ ہر موسم بہار کے چنے ہوئے شگوفوں کا گلدستہ ہے اور اگر کپڑوں سے تشبیہ دو گے تو منقش حلوں یا خوش نما یمنی چادروں کے مانند ہیں اور اگر زیورات سے تشبیہ دے دو گے تو وہ رنگ برنگ کے ان نگینوں کی طرح ہے جو مرصع بجواہر چاندی میں دائروں کی صورت میں پھیلا دیے گئے ہوں اور اس طرح چلتا ہے جس طرح کوئج ہشاش بشاش اور متکبر محو خرام ہوتا ہے اور اپنی دم اور پر و بال کو غور سے دیکھتا ہے تو اپنے پیراہن کے حسن و جمال اور اپنے گول بند کی رنگوں کی وجہ سے قہقہہ لگا کر ہنستا ہے مگر جب اپنے پیروں پر نظر ڈالتا ہے تو اونچی آواز سے روتا ہے کہ گویا اپنی فریاد کو ظاہر کر رہا ہے اور اپنے سچے درد دل کی گواہی دے رہا ہے کیونکہ اس کے پیر خاکستری رنگ کے دو غلے مرغوں کے پیروں کی طرح باریک اور پتلے ہوتے ہیں اور اسکی پنڈلی کے کنارے پر ایک باریک سا کانٹا نمایاں ہوتا ہے اور اس کی گردن پر ایال کی جگہ سبز رنگ کے منقش پروں کا گچھا ہوتا ہے اور گردن کا پھیلاؤ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے صراحی کی گردن اور اور اس کے گڑنے کی جگہ سے لے کر وہاں تک کا حصہ کہ جہاں اس کا پیٹ ہے یمنی وسمہ کے رنگ کی طرح گہرا سبز ہے یا اس ریشم کی طرح ہے جو صیقل کیے ہوئے آئینہ پر پہنا دیا گیا ہو۔ گویا کہ وہ سیاہ رنگ کی اوڑھنی میں لپٹا ہوا ہے لیکن اس کی آب و تاب کی فراوانی اور اور چمک دمک کی بہتات سے ایسا گمان ہوتا ہے کہ اس میں تروتازہ سبزی کی الگ سے آمیزش کر دی گئی ہے اور اس کے کانوں کے شگاف سے ملی ہوئی بابونہ کی پھولوں جیسی ایک سفید چمکیلی لکیر ہوتی ہے جو قلم کی باریک نوک کی مانند ہے۔ وہ لکیر اپنی سفیدی کے ساتھ اس جگہ کی سیاہیوں میں جگمگاتی ہے کم ہی ایسے لوگ ہوں گے جس نے سفید دھاری کا کچھ حصہ نہ لیا ہو اور وہ ان میں رنگوں پر اپنی آب و تاب کی زیادتی اپنے پیکر ریشمیں کی چمک دمک اور زیبائش کی وجہ سے چائی ہوئی ہے وہ ان بکھری ہوئی کلیوں کے مانند ہے کہ جنہیں نہ فصل بہار کی بارشوں نے پروان چڑھایا ہو اور نہ گرمیوں کے سورج نے پرورش کیا ہو وہ کبھی اپنے پر و بال سے برہنہ اور اپنے رنگین لباس سے عریاں ہو جاتا ہے اس کے بال و پر پر لگاتار جھڑتے ہیں اور پھر درپے اگنے لگتے ہیں وہ اس کے بازوؤں سے اس طرح جھڑتے ہیں جس طرح ٹہنیوں سے پتے۔ یہاں تک کہ جھڑنے سے پہلے جو شکل و صورت تھی اس کی طرف پلٹ آتا ہے اور اپنے پہلے رنگوں سے سرمو ادھر سے ادھر نہیں ہوتا اور نہ کوئی رنگ اپنی جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ اختیار کرتا ہے۔ جب اس کے پروں کے ریشوں میں سے کسی ریشے کو تم غور سے دیکھو گے تو وہ تمہیں کبھی گلاب کے پھولوں جیسی سرخی اور کبھی زمرد جیسی سبزی اور کبھی سونے جیسی زردی کی جھلکیاں دکھائے گا۔ غور تو کرو کہ ایک ایسی مخلوق اس کی صفتوں تک فکر کی گہرائیاں کیوں کر پہنچ سکتی ہیں یا عقلوں کی طبع آزمائیاں کس طرح وہاں تک رسائی پا سکتی ہیں یا بیان کرنے والے والوں کے کلمات کیوں اس کے وصفوں کو ترتیب دے سکتے ہیں کہ جس کے چھوٹے سے چھوٹے جز نے واہموں کو سمجھنے سے عاجز اور زبانوں کو بیان کرنے سے درماندہ کردیا ہو ، تو پاک ہے وہ ذات جس نے ایک ایسی مخلوق کی حالت بیان کرنے سے بھی عقلوں کو مغلوب کر رکھا ہے کہ جسے آنکھوں کے سامنے نمایاں کر دیتا تھا اور ان آنکھوں نے اس کو ایک حد میں گھرا ہوا اور اجزاء کے مرکب اور مختلف رنگوں سے رنگین صورت میں دیکھ بھی لیا اور زبانوں کو اس مخلوق کے وصفوں کا خلاصہ کرنے سے عاجز اور اس کی صفتوں کے بیان کرنے سے درماندہ کردیا ہے اور پاک ہے وہ خدا کہ جس نے چیونٹی اور مچھر سے لے کر ان سے بڑی مخلوق مچھلیوں اور ہاتھیوں تک کے پیروں کو مضبوط و مستحکم کیا ہے اور اپنی ذات پر لازم کر لیا ہے کہ کوئی پیکر کہ جس میں اس نے روح داخل کی ہے جنبش نہیں کھائے گا مگر یہ کہ موت کو اس کی وعدہ گاہ اور فنا کو اس کی حد آخر قرار دے گا۔”
Add Comment