تاریخی حقائق خطبات و خطوط اہل بیت علیھم السلام

حضرت علی علیہ السلام کو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیسے علم عطا کیا اور علم کے متعلق امام علی علیہ السلام کا دعویٰ

 اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

ترجمہ: ” آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہہ دیں کہ کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں؟”

سورۂ زمر : آیت 9

اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ علم ہی فضیلت و کمال کا ذریعہ ہے اور دنیا کا انسان علم کی عظمت کا معترف ہے اور ہر شخص اپنی فطرت کی روشنی میں عالم کو جاھل پر فضیلت دیتا ہے۔ اسلام نے بھی علم اور عالم کی فضیلت بیان کی ہے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:

“علم کی تلاش کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔”

قرآن کریم کی بہت سی آیات میں علم کی عظمت اور اس کی قدر و قیمت پر گفتگو کی گئی ہے اور اہل علم کی تعریف کی گئی ہے عدالت اور فیصلہ کے شعبہ کا علم سے گہرا رابطہ ہے کیونکہ اس شعبہ کے لیے احکام شرعیہ اور آداب قضاء و فتویٰ کی ضرورت ہے اللہ تعالی پر ایمان اور معرفت خداوندی کے درجات بھی علم پر منحصر ہیں حضرت علی علیہ السلام کے علم اور آپ علیہ السلام کے ایمان کی گہرائی کو بیان کرنا انسانی قدرت سے باھر ھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث صحیح میں یہ بیان کیا گیا ہے:

“اے علی علیہ السلام! اللہ کی کماحقہ معرفت فقط مجھے اور تجھے حاصل ہے مجھے اللہ اور آپ علیہ السلام ہی کماحقہ پہچانتے ہیں اور تجھے اللہ اور میں ہی کماحقہ پہچانتے ہیں۔”

کسی انسان کے بس میں نہیں ہے کہ وہ علم امام علی علیہ السلام کے حدود و قیود کو بیان کرے کیونکہ آپ علیہ السلام کا علم رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم سے ماخوذ ہے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم اللہ تعالیٰ سے ماخوذ ہے آپ علیہ السلام کا علم کسبی نہیں تھا آپ علیہ السلام کا علم خدا کے فیضان کا نتیجہ تھا۔ قرآن مجید میں ہمیں بہت سی ایسی آیات دکھائی دیتی ہیں جن میں انبیاء علیہ السلام کے علم پر بحث کی گئی ہے اور اللہ تعالی نے ہر جگہ واضح کیا ہے کہ انبیاء علیہ السلام کے علم کا منبع ذات خداوندی ہے اور انبیاء علیہ السلام براہ راست خدا کے شاگرد ہوتے ہیں اسی لیے انبیاء علیہ السلام کا علم حقیقی ہے اور اس میں باطل کی کوئی ملاوٹ نہیں ہے انبیاء علیہ السلام کا علم حق ہے جو کہ مطابق واقعہ ہے اسی سلسلہ کی چند آیات نیچے دی گئی ہیں:

“آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہیں کہ میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما۔”

سورہ طہ آیت 114

“ان دونوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پا لیا جسے ہم نے اپنی طرف سے رحمت دی تھی اور اپنی طرف سے اسے تعلیم دی تھی۔”

“خدا نے طالوت کے علم اور جسمانی قوت میں اضافہ کیا تھا۔”

“ان سب انبیاء علیہ السلام کو ہم نے حکم اور علم عطا کیا تھا۔”

“ہم نے حضرت لوط علیہ السلام کو حکم دیا اور علم عطا کیا۔”

“ہم نے حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو علم عطا کیا ہے۔”

“جب حضرت موسی علیہ السلام سن رشد پر پہنچ کر تنو مند ہوگیا تو ہم نے انہیں حکمت اور علم عطا کیا۔”

“اے حضرت موسی علیہ السلام! میں نے آپ علیہ السلام کو لوگوں میں سے اپنے پیغامات اور ہم کلامی کے لیے منتخب کیا ہے۔”

“جب خدا نے کہا: اے حضرت عیسیٰ علیہ السلام بن مریم سلام اللہ علیہا! میری اس نعمت کو یاد کر جو آپ علیہ السلام پر اور آپ علیہ السلام کی والدہ پر ہوئی جب میں نے روح القدس سے تیری تائید کی جو گہوارے اور پختہ عمر میں لوگوں سے کلام کرتا تھا اور جب میں نے تجھے کتاب و حکمت کی تعلیم دی۔”

“اور خدا نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام اسماء کی تعلیم دی۔”

“بابا جان (اے چچا) میرے پاس وہ علم آ چکا ہے جو کہ تیرے پاس نہیں آیا ہے۔”

“ہم نے وہ مسئلہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو سمجھا دیا۔”

“تعبیر خواب یہ اس علم کا نتیجہ ہے جو میرے رب نے مجھے تعلیم دیا ہے۔”

“خدا نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کتاب و حکمت نازل کی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس چیز کی تعلیم دی جسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ جانتے تھے۔”

“حضرت داؤد علیہ السلام نے جالوت کو قتل کر دیا اللہ نے اسے سلطنت اور حکمت عطا فرمائی اور جو کچھ چاہا اسے سکھا دیا۔”

“بے شک ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حق کے ساتھ کتاب نازل کی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں میں اس طرح کے فیصلے کریں جیسا کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دکھایا ہے۔”

یہ حقائق جاننے کے بعد ہم امام حضرت علی علیہ السلام کے علوم و معارف اور ان کی ثقافت اہلیہ کا کیسے اندازہ کر سکتے ہیں؟؟؟؟؟

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر علم کے دروازے کا احاطہ کرنا انسانی قدرت سے باھر ھے آپ علیہ السلام رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلے شاگرد ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام علوم آپ علیہ السلام کے سینے میں انڈیلے تھے اور ایک ہی لمحے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے شاگرد کے لیے علم کے ہزار دروازے کھولے تھے پھر لائق و فائق شاگرد نے ہر دروازے سے ہزار علم کے دروازے کھولے تھے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ شہر علم کے دروازے پر مولا علی علیہ السلام جاہلی معاشرے میں علوم ربانیہ اور معروف اہلیہ کو بیان نہیں کر سکے تھے مجھے اس دور کے لوگوں پر افسوس ہوتا ہے کہ جنہوں نے اتنے بڑے عالم سے علم حاصل نہیں کیا تھا جبکہ انہیں علم کی شدید ضرورت تھی۔ اس سے بڑھ کر مقام افسوس کیا ہو سکتا ہے کہ کائنات کا سب سے بڑا عالم پورے پچیس برس اپنے گھر میں عزلت اور خانہ نشینی کی زندگی بسر کرتا رہا اور وہ اپنے علوم سے لوگوں کے عقول کو منور نہ کر سکا اور علم کے قیمتی موتی معاشرے کے سپرد نہیں کر سکا۔

آج اہل مغرب اسکندریہ کی لائبریری کے جلائے جانے پر نوحہ کناں نظر آتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ کاش حکام نے اسکندریہ کا کتب خانہ نہ جلایا ہوتا تو آج انسانیت بہت ترقی کر چکی ہوتی لیکن وہ علوم کے موتی نذر آتش کیے گئے اور ایسا کر کے حکام نے تمام انسانیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ کتب خانے کے جلائے جانے کی ہم بھی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ اسکندریہ کے کتب خانے کا جلایا جانا کسی المیہ سے کم نہیں ہے لیکن اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام جیسا کائنات کا عالم ترین فرد پورے پچیس برس کی خاموشی اختیار کرے اور خانہ نشین ہونے پر مجبور ہو جاۓ۔

اسکندریہ میں تو صرف کتابیں ضائع ہوئی تھیں اور وہ خاموش تھیں ان کے منہ میں زبان نہ تھی جب آپ علیہ السلام مجسم علم تھے اور منہ میں زبان بھی رکھتے تھے اس امر پر شدید افسوس ہے کہ امت اسلامیہ کی تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہے جبکہ خدا نے انہیں ایسا ہادی بھی دیا تھا جس کے چراغ علم سے جہالت کی تیرگی روشنی میں بدل سکتی تھی۔ افسوس ہے ان اہل اقتدار پر جنہوں نے چند روزہ حکومت و اقتدار کے لئے امت سے معارف کے خزانے چھین لیے اور امت کی الٰہی علوم سے محروم کر دیا اور زبان بندی کا یہ عرصہ پچیس سال پر محیط ہے۔ پھر جیسے ہی حالات سازگار ہوئے اور آپ علیہ السلام کو حکومت ملی تو آپ علیہ السلام نے سلام پوری کوشش کی کہ ملت اسلامیہ کے دامن کو علم و حکمت کے موتیوں سے بھر دیں، لیکن مخالفین نے آپ علیہ السلام کو اس کا موقع بھی نہ دیا اور اندرونی جنگیں شروع کر دی گئیں اور آپ علیہ السلام کو اطمینان سے محروم کردیا گیا اور یوں نشاط علمی جنگی طاقت میں بدل دی گئی اور ثقافتی ادارے خون ریز معرکہ گاہوں میں بدل گئے جس کے برے نتائج سے آج تک امت اسلامیہ باہر نہیں نکل سکی۔

ان تمام تر سختیوں کے باوجود امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے ثقافت و معرفت کے آسمان پر علم کی شمع کو روشن کیا اس کے لئے نہج البلاغہ پر نظر ڈالیں اس کتاب میں آپ علیہ اسلام کے خطبات ، مکتوبات اور کلمات حکمت کا چوبیسواں حصہ ہے یہ حصہ اس کتاب کی شکل میں محفوظ ہے اس کے علاوہ آپ علیہ السلام کے خطبات ضائع ہوئے ہیں ان کا تو کوئی حساب ہی نہیں ہے۔ تاریخ بیان کرتی ہے کہ ایک مرتبہ آپ علیہ السلام نے نماز فجر کے بعد خطبہ شروع کیا اور نماز ظہر تک خطبہ میں مصروف رہے یعنی آپ علیہ السلام نے 6گھنٹے کا خطبہ دیا لیکن آج وہ علم کے موتی ہمیں کہیں دکھائی نہیں دیتے۔ علوم امام علی علیہ السلام کی وسعت کے لئے حسب ذیل روایات ملاحظہ فرمائیں۔ امیرالمومنین علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:

“اگر میرے لئے مسند بچھا دی جائے اور میں اس پر بیٹھ جاؤں تو اہل قرآن کے درمیان قرآن سے فیصلہ کروں گا اور اہل تورات کے درمیان تورات سے فیصلہ کروں گا اور اہل انجیل کے درمیان انجیل سے فیصلہ کروں گا اور اہل زبور کے درمیان زبور سے فیصلہ کروں گا اگر کتاب الہٰی میں ایک آیت نہ ہوتی تو میں قیامت تک کے واقعات سے تمہیں باخبر کرتا۔ میں اہل تورات سے تورات کو بہتر جانتا ہوں اور اہل انجیل سے انجیل کو بہتر جانتا ہوں۔

اصبغ بن نباتہ کا بیان ہے کہ جب امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کوفہ تشریف لائے تو آپ علیہ السلام نے پورے چالیس دن تک سورہ فاتحہ کے بعد سورہ سبع اسم ربک الاعلیٰ کی تلاوت کی۔ لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ حضرت علی علیہ السلام کو قرآن پر عبور حاصل نہیں ہے ورنہ وہ اور سورتیں بھی پڑھتے۔ جب حضرت علی علیہ السلام نے یہ سنا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:

“ان پر افسوس ! میں قرآن مجید کے ناسخ ، منسوخ ، محکم اور متشابہ کو جانتا ہوں اور قرآن مجید کے ” فصل و وصل” سے واقف ہوں اور تمام حروف کے معانی جانتا ہوں خدا نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جو بھی قرآن اتارا ہے میں ہر آیت کے متعلق جانتا ہوں کہ وہ کس کے متعلق نازل ہوئی ہے اور کس دن نازل ہوئی اور کس سر زمین پر نازل ہوئی۔

ان پر افسوس! میں تو وہ ہوں جس کے متعلق خود قرآن کریم نے کہا ہے: “اسے یاد رکھنے والا کان یاد رکھے گا۔”

چناچہ وہ یاد رکھنے والا کان میں ہی ہوں ھم حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں وحی سے مطلع کرتے تھے میں یاد کر لیتا تھا اور باقی لوگوں کی یہ کیفیت تھی کہ جب وہ باہر آتے تو کہتے تھے “آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابھی ابھی کیا کہا ہے؟”

عبایہ بن ربعی کا بیان ہے کہ میں نے حضرت علی علیہ السلام کو یہ کہتے ہوئے سنا آپ علیہ السلام فرما رہے تھے:

“مجھ سے سوال کرو قبل اس کے کہ تم مجھے نہ پاؤ کیا تم اس سے نہیں پوچھو گے جس کے پاس اموات، آزمائشات اور انساب کا علم ہے؟”

اصبغ بن نباتہ راوی ہیں کہ جب امیر المومنین علی علیہ السلام کی بیعت خلافت ہوئی تو آپ علیہ السلام نے سر پر رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا عمامہ سجایا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و سلم کی چادر لپیٹی اور منبر پر تشریف لائے اور اللہ تعالی کی حمد و ثنا کی اور لوگوں کو نصیحتیں کیں۔ پھر آپ علیہ السلام نے اپنی انگلیوں میں انگلیاں ڈالیں اور اپنے ہاتھ ناف کے نیچے رکھ کر فرمایا:

اے گروہ مردم! مجھ سے پوچھ لو قبل اس کے کہ تم مجھے نہ پاؤ۔ میرے پاس اولین و آخرین کا علم ہے خدا کی قسم! اگر میرے لئے مسند بچھا بچھا دی جائے تو میں اہل تورات کے لیے تورات کے مطابق فیصلہ کروں گا اور اہل انجیل کے لیے انجیل کے مطابق فیصلہ کروں گا اوراہل زبور کے لیے زبور کے مطابق فیصلہ کروں گا اور اہل قرآن کے لیے قرآن کے مطابق فیصلہ کروں گا اور صرف فیصلہ ہی نہیں کروں گا ان میں سے ہر کتاب یہ اعلان کرے گی کہ خدایا! حضرت علی علیہ السلام نے تیرے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔

خدا کی قسم! میں تو قرآن کا دعویٰ کرنے والے ہر دعویدار سے قرآن کو زیادہ جانتا ہوں اور اس کی تاویل کو سب سے بہتر جانتا ہوں۔ اور اگر قرآن مجید میں ایک آیت نہ ہوتی تو میں قیامت تک کے حالات کی تمہیں خبر دے دیتا۔

پھر آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: ” مجھ سے پوچھ لو قبل اس کے کہ تم مجھے نہ پاؤ۔ اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور انسانی جان کو پیدا کیا تم مجھ سے جس بھی آیت کے متعلق سوال کرو گے تو میں تمہیں اس کے وقت نزول کی خبر دوں گا اور یہ بھی بتاؤں گا کہ وہ کس مسئلہ کے متعلق نازل ہوئی اور میں تمہیں ناسخ ومنسوخ ، خاص و عام، محکم و متشابہ اور مکی و مدنی ہر آیت کے متعلق بتاؤں گا۔ خدا کی قسم! جتنے بھی قیامت تک گروہ آنے ہیں جنہوں نے گمراہی یا ہدایت کو پھیلایا ہے میں ان گروہوں کے رہبروں اور ان کے محرکین اور ان کے پیروکاروں کے متعلق جانتا ہوں۔”

ابن عباس رضی اللہ کہتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علم دیا تھا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا نے علم دیا تھا لہذا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم کا سرچشمہ خدا کا علم ہے اور حضرت علی کے علم کا سرچشمہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم ہے اور میرے علم کا سرچشمہ حضرت علی علیہ السلام کا علم ہے میرے اور جملہ اصحاب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم کی حضرت علی علیہ السلام کے علم سے وہی نسبت ہے جو ایک قطرے کے سات سمندروں کے سامنے ہے۔

ابن عباس رضی اللہ بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ حضرت عمر نے حضرت علی علیہ السلام سے کہا: اے ابو الحسن! جب بھی آپ علیہ السلام سے سوال کیا جاتا ہے تو آپ علیہ السلام سے سوال کیا جاتا ہے تو آپ علیہ السلام کسی غور و فکر کے بغیر فوراً جواب دے دیتے ہیں آخر اس کی کیا وجہ ہے؟

حضرت علی علیہ السلام نے حضرت عمر سے کہا: اچھا یہ بتاؤ تمہارے ہاتھ کی کتنی انگلیاں ہیں؟

حضرت عمر نے فورا کہا: پانچ

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: تم نے غور و فکر کیوں نہیں کیا فوراً جواب کیوں دے دیا؟

حضرت عمر نے کہا: بھلا اس میں سوچنے کی کیا بات تھی یہ انگلیاں ہر وقت میرے سامنے موجود ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: جس طرح سے انگلیاں تمہارے سامنے ہیں اور تمہیں ان کے متعلق سوچنا نہیں پڑتا اسی طرح سے کائنات میرے سامنے ہے لہذا مجھے بھی غور و فکر کی ضرورت نہیں پڑتی۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے قاضی ابن ابی لیلیٰ سے فرمایا: عبدالرحمن! تم فیصلہ کس بنیاد پر کرتے ہو؟

اس نے کہا: میں کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: اگر مسئلہ کتاب اللہ میں موجود نہ ہو تو پھر؟

اس نے کہا: میں سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں اور اگر مسئلے کا حل سنت میں موجود نہ ہو تو صحابہ کے اجماع کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: اگر صحابہ کا آپس میں اختلاف ہو تو پھر کس صحابی کے قول پر عمل کرو گے؟

اس نے کہا: میں ایک صحابی کے قول کو چن لوں گا باقی اقوال کو چھوڑ دوں گا۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: یہ بتاؤ کہ اگر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیامت کے دن یہ کہہ دیا کہ پروردگار! اس وقت تک میرا فرمان پہنچا تھا لیکن اس نے میرے فرمان کی مخالفت کی تھی تو پھر کیا جواب دو گے؟

قاضی ابن ابی لیلیٰ نے کہا: میں نے فرمان پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کیسے مخالفت کی ہے؟

امام علیہ السلام نے فرمایا: تجھ تک رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان پہنچا تھا: “تم میں بڑا قاضی حضرت علی علیہ السلام ہے۔”

ابن ابی لیلیٰ نے جواب دیا: جی ہاں مجھ تک یہ حدیث پہنچی ہے۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: جب تم قول حضرت علی علیہ السلام کے خلاف فیصلہ کرو گے تو کیا اس سے قول رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت لازم نہ آئے گی؟

قاضی ابن ابی لیلیٰ کا چہرہ زرد ہو گیا اور وہ خاموش ہو گیا۔

اصبغ بن نباتہ اور ایک پوری جماعت کا بیان ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے مہاجرین و انصار کے سامنے اپنے سینہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:

یہ سینہ علم سے بھرا ہوا ہے کاش کوئی اس کا طالب ہوتا مجھ سے پوچھ لو قبل اس کے تم مجھے نہ پاؤ۔ اس سینہ میں شفاف علم ہے۔ یہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لعاب کا اثر ہے یہ وہ علم ہے جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اس طرح سے دیا تھا جیسے پرندہ اپنے بچے کو دانا منہ میں بھراتا ہے۔

مجھ سے پوچھ لو میرے پاس اولین و آخرین کا علم ہے خدا کی قسم! اگر میرے لئے مسند مچا دی جائے۔ نہج البلاغہ کے ایک خطبے میں آپ علیہ السلام نے فرمایا:

“تم جو چاہو مجھ سے پوچھ لو اس سے قبل کے تم مجھے نہ پاؤ۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم اس وقت سے لیکر قیامت تک کہ درمیانی عرصہ کی جو بھی بات مجھ سے پوچھو گے میں تمہیں بتاؤں گا اور کسی ایسے گروہ کے متعلق دریافت کرو گے جس نے سو کو ہدایت کی ہو اور سو کو گمراہ کیا ہو تو میں اس کے للکارنے والے، اسے آگے سے کھینچنے والے، پیچھے سے دھکیلنے والے اور ان کی سواریوں کی منزل اور اس کے ساز و سامان سے لدے ہوئے پالانوں کے اترنے کی جگہ تک بتا دوں گا اور یہ بھی بتاؤں گا کہ ان میں کون قتل کیا جائے گا اور کون اپنی موت مرے گا۔”

سلیمان بیان کرتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:

میرے پاس علم المنایا، علم البلایا، علم الوصایا، علم انساب اور فیصلہ کرنے کا علم ہے۔ میں جانتا ہوں کہ اسلام پر پیدا ہونے والے کون ہیں اور کفر پر پیدا ہونے والے کون ہیں؟ میں یہی مہر کی انگوٹھی والا ہوں۔ میں فاروق اعظم ہوں اور تمام سلطنتوں کی سلطنت ہوں، قیامت تک کے حالات کے متعلق مجھ سے پوچھ لو اور مجھ سے پہلے لوگوں کے بارے پوچھو اور مجھ سے بعد میں آنے والے کے حالات پوچھ لو جب تک خدا کی عبادت رہے گی تب تک کہ حالات پوچھ لو۔”

Add Comment

Click here to post a comment