سیرت اہل بیت علیھم السلام

مولا علی امیر المومنین علیہ السلام کا حضرت عباس علمدار پر فخر کرنا

 حاکم ابوالقاسم حسکانی نے ابن بریدہ سے روایت کی ہے اور اس نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ شیبہ بن ابی طالب اور عباس بن عبدالمطلب نے ایک دوسرے پر فخر کیا حضرت علی علیہ السلام وہاں سے گذرے تو انہوں نے ان سے کہا: تم کس بات پر فخر کر رہے ہو؟

عباس نے کہا: مجھے وہ فضیلت ملی ہے جو کسی کو نہیں ملی حجاج کو پانی پلانا میری ذمہ داری ہے۔

شیبہ نے کہا: میں مسجد الحرام کا متولی ہوں۔

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: تم تم بزرگ ہوں اور میں تم دونوں سے کم سن ہو لیکن مجھے جو فضیلت ملی ہے وہ تم دونوں کو نہیں ملی۔

دونوں نے کہا: آپ علیہ السلام کو کونسی فضیلت ملی ہے؟

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: میں نے تم دونوں کے ناکوں پر تلوار کے وار کیے، یہاں تک کہ تم دونوں خدا اور اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے۔

عباس کو یہ سن کر غصہ آیا اور وہ غصے کی حالت میں اٹھ کر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف روانہ ہوا، اور اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں دیکھا کہ حضرت علی علیہ السلام نے ہماری کیسی بے ادبی کی ہے؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حضرت علی علیہ السلام کو بلاؤ۔ جب حضرت علی علیہ السلام آئے تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ علیہ السلام سے فرمایا: تم نے اپنے چچا کی بے ادبی کیوں کی ہے؟

حضرت علی علیہ السلام نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں نے ان سے سچی بات کہی ہے اب ان پر منحصر ہے کہ وہ اس پر ناراض ہوں یا راضی ہوں۔

اس وقت جبرائیل امین علیہ السلام نازل ہوئے اور کہا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پروردگار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کہتا ہے اور یہ آیت نازل کی ہے:

ترجمہ: ” کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد الحرام کی آباد کاری کو اس کے مانند بنایا جو کہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان لایا اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا وہ آپس میں برابر نہیں ہیں۔”

(سورہ توبہ: آیت 19)

جب جناب عباس نے یہ آیت سنی تو تین بار کہا: ہم راضی ہیں۔

آیت  نجویٰ:

اللہ تعالی نے حضرت علی علیہ السلام کو کچھ ایسی خصوصیات سے نوازا ہے کہ جن میں آپ علیہ السلام م منفرد ہیں اور آپ علیہ السلام کا کوئی بھی ان صفات میں شریک نہیں ہے۔ امیر کائنات اپنی بات پر فخر کیا کرتے تھے۔ آپ علیہ السلام کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں آیت نجوی ناظم کی اور اس پر حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ کسی بھی مسلمان نے عمل نہیں کیا وہ آیت مجیدہ یہ ہے:
ترجمہ: ” اے اہل ایمان! جب تم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرگوشی کرنا چاہو تو سرگوشی سے پہلے صدقہ دو، یہ تمہارے لئے سب سے بہتر اور پاکیزہ تر ہے۔”
(سورۂ مجادلہ: آیت 12)
ثعلبی اور واحدی کے علاؤہ دیگر مفسرین نے لکھا ہے کہ دولت مند افراد نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ سرگوشیاں شروع کر دی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس مجالس میں غلبہ حاصل کر لیا تھا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ طرز عمل ناگوار گزرا اور ان کی زیادہ سرگوشیوں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تنگ آ گئے اس پر اللہ تعالی نے آیت نجویٰ نازل کی اور حکم دیا کہ جس نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرگوشی کرنی ہو تو پہلے صدقہ دے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرگوشی کرے۔
غریبوں کے پاس دولت نہ تھی اس لئے وہ صدقہ دینے سے قاصر تھے اور دولت مندوں نے کنجوسی سے کام لیا۔ لہٰذا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سکون نصیب ہوا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اس پر عمل نہ کرنے کا طعنہ دیا اور اپنے اس حکم کو منسوخ کردیا۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: اللہ تعالی کے کتاب میں ایک ایسی بھی ہے جس پر مجھ سے پہلے کسی نے عمل نہیں کیا تھا اور میرے بعد کوئی بھی اس پر عمل نہیں کر سکے گا اور وہ آیت نجویٰ ہے جب یہ آیت نازل ہوئی تو اس وقت میرے پاس ایک دینار تھا میں نے اس کو چینج کروایا اور دس درہم حاصل کیے اور میں جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرگوشی کرنا چاہتا تو ایک درہم صدقے میں دے دیتا اور یوں میں نے دس مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سرگوشی کی۔
پھر اللہ تعالی نے اس آیت کو منسوخ کر دیا اور فرمایا:
“کیا تم سرگوشی سے پہلے صدقہ دینے سے گھبرا گئے ہو؟”
سورۃ مجادلہ : آیت 13)
اللہ تعالی نے اس حکم کو سرے سے ہی منسوخ کر دیا۔
ابن عمر کا قول ہے کہ خدا کی طرف سے حضرت علی علیہ السلام کو ایسی تین فضیلتیں دی گئی ہیں اگر مجھے ان میں سے ایک بھی حاصل ہوتی تو مجھے سرخ رنگ کے اونٹوں سے زیادہ محبوب ہوتی:
1) حضرت علی علیہ السلام کی شادی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے ہوئی۔
2) جنگ خیبر میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو پرچم اسلام عطا کیا تھا۔
3) حضرت علی علیہ السلام نے ہی آیت نجویٰ پر عمل کیا تھا۔
شیخ طوسی لکھتے ہیں کہ ترمذی اور ثعلبی نے حضرت علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا: “میری وجہ سے خدا نے اس امت کو تخفیف دی ہے کیونکہ اللہ تعالی نے اس آیت کے ذریعے سے صحابہ کو آزمایا تھا اور انہیں صدقہ دے کر مناجات کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس کی وجہ سے صحابہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرگوشی ترک کر دی تھی۔”
اس آیت کے نزول کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے گھر میں بیٹھ گئے میرے پاس ایک دینار تھا میں نے وہ دینا راہ خدا میں صدقہ دے دیا تھا اس آیت پر صرف میں نے عمل کیا تھا میری وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی توبہ قبول کی اور اگر اس آیت پر کوئی شخص عمل نہ کرتا تو امت پر عذاب نازل ہو جاتا۔

دس اہم باتیں :

کتاب فرائد السمطین میں مرقوم ہے کہ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: میں نے دس درہموں کے عوض آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دس بار سرگوشی کی اور ہر بار رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک مسئلہ پوچھا میں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دس بار سرگوشی کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے دس اہم باتوں کی تعلیم دی۔ ان سوالات اور ان کے جوابات کو مکالمہ کی شکل میں پیش کرتے ہیں:
حضرت علی علیہ السلام: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! وفا کیا ہے؟
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: توحید، یعنی لا الہ الا اللہ کی گواہی دینا۔
حضرت علی علیہ سلام: فساد یعنی بگاڑ کیا ہے؟
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: کفر اور خدا کے ساتھ شرک کرنا۔
حضرت علی علیہ السلام: حق کیا ہے؟
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: اسلام، قرآن اور ولایت جب تم تک پہنچے۔
حضرت علی علیہ السلام: حیلہ کیا ہے؟
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم: ترک حیلہ ہی حیلہ ہے۔
حضرت علی علیہ السلام: میرا فریضہ کیا ہے؟
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرنا۔
حضرت علی علیہ السلام: خدا سے دعا مانگنے کا سلیقہ کیا ہے؟
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: صدق و یقین کے ساتھ دعا مانگنی چاہیے۔
حضرت علی علیہ السلام: میں اللہ سے کیا مانگوں؟
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: خدا سے عافیت طلب کرو۔
حضرت علی علیہ السلام: مجھے اپنی نجات کے لیے کیا کرنا چاہیے؟
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: حلال کھاؤ اور سچ کہو۔
حضرت علی علیہ السلام: سرور کہاں ہے؟
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: سرور جنت میں ہے۔
حضرت علی علیہ السلام: مومن کو راحت کب ملتی ہے؟
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: اللہ کی ملاقات سے۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں: میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جب یہ سوالات کر لیے تو اس کے بعد سرگوشی سے پہلے صدقہ دینے کا حکم منسوخ ہوگیا۔
بعض علماء نے کہا ہے کہ جب کوئی ان دس کلمات کی گہرائی پر نظر کرے گا تو اسے محسوس ہوگا کہ یہ دس حکمت آمیز تعلیمات خاصان خدا کا خلاصہ ہیں اور یہ تعلیمات اتنی قیمتی ہیں کہ انسان اگر ساری دولت بھی ان پر قربان کر دے تو بھی گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے پاس کل دولت ایک دینار تھی آپ علیہ السلام نے وہ دولت خرچ کی اور یہ تعلیمات حاصل کی تھیں۔
قرآن کریم میں بیسیوں آیات ایسی ہیں جن میں حضرت علی علیہ السلام کی تعریف کی گئی ہے قرآن مجید میں حضرت علی علیہ السلام کو شہید، شاہد، مشہود، ذکر، نور، ہدی، صادق، ۔مصدق، صدیق، فضل، رحمت، نعمت اور صاحب علم الکتاب کے القاب سے یاد کیا گیا ہے اور حدیث سے ان اسماء کی تصدیق ہوتی ہے اختصار کے پیش نظر ہم نے صرف اشارے پر اکتفا کیا ہے۔