امیرالمومنین علی علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: “میرے بعد جلد ہی تم پر ایک ایسا شخص مسلط ہوگا جس کا حلق کشادہ اور پیٹ بڑا ہوگا جو پائے گا نگل جائے گا اور جو نہ پائے گا اس کی اس سے ڈھونڈ لگی رہے گی بہتر تو یہ ہے کہ تم اسے قتل کر ڈالنا لیکن یہ معلوم ہے کہ تم اسے ہرگز قتل نہ کرو گے وہ تمہیں حکم دے گا کہ تم مجھے برا کہو اور مجھ سے بیزاری کا اظہار کرو۔ جہاں تک برا کہنے کا تعلق ہے تو مجھے برا کہہ لینا اس لئے کہ یہ میرے لئے پاکیزگی کا سبب اور تمہارے لئے دشمن سے نجات پانے کا باعث ہے لیکن دل سے مجھ سے بیزاری اختیار نہ کرنا اس لیے کہ میں دین فطرت پر پیدا ہوا ہوں اور ایمان اور ہجرت میں میں نے سبقت حاصل کی ہے۔”
نہج البلاغہ، خطبہ 57
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے امیر شام کے تسلط کی پیشین گوئی کی تھی اور آپ علیہ السلام نے اس کی مذموم صفات بھی بیان کی ہیں آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: وہ زیادہ کھاتا ہو گا اور وہ کھانے سے میسر نہیں ہوگا اصل بات یہ ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لا اشبع اللہ بطنه کہہ کر امیر شام کو بد دعا دی تھی کہ ” خدا کرے کہ اس کا پیٹ کبھی نہ بھرے۔”
ہجرت سے مراد یہ ہے کہ خدا کی رضا کے لئے وطن اور جو کچھ وطن میں ہے اسے چھوڑ دیا جائے۔ پروردگار عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
“جو کوئی اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہجرت کرے پھر اس پر موت واقع ہو جائے تو اس کا اجر خدا کے ذمہ ہے۔”
یہ آیت مجیدہ ان مہاجرین کی شان میں نازل ہوئی جنہوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور اس آیت مجیدہ کے مفہوم میں وہ عازمین حج بھی شامل ہیں جن کی راہ حج میں وفات ہو جائے۔ اللہ تعالی نے مہاجرین کو غیر مہاجرین پر فضیلت دی ہے کیونکہ انہوں نے اپنا تمام مال اور خاندان اس لئے چھوڑا تھا کہ ان کا دین محفوظ رہے اور وہ مشرکین سے نجات حاصل کر سکیں ، جو انہیں احکام دین پر عمل کرنے سے منع کرتے تھے۔ حضرت علی علیہ السلام نے ہجرت میں باقی مسلمانوں پر سبقت حاصل کی تھی مؤرخین لکھتے ہیں: آپ علیہ السلام نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امانتیں لوگوں کو واپس کیں، پھر آپ علیہ السلام نے مکہ سے ہجرت کی اور سب سے پہلے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جاملے تھے۔
مورخین بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غار سے مدینہ تک ہجرت کی تھی اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے سبقت ہجرت کا ذکر کیا ہوگا تو اس وقت حضرت ابو بکر موجود نہیں ہوں گے۔ حضرت ابوبکر مکہ سے ہجرت کے ارادہ سے نہیں نکلے تھے وہ رفاقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر روانہ ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ قبا پہنچے تھے، جبکہ حضرت علی علیہ السلام نے مکہ کو ہجرت کی نیت سے چھوڑا تھا اور ہر چیز کو ہجرت کی غرض سے خیر باد کہا تھا اسی لئے حضرت علی علیہ السلام کو علی الاطلاق اول المہاجرین کہنا صحیح ہے۔
حضرت علی علیہ السلام کی ہجرت کے واقعات کو مورخین نے یوں بیان کیا ہے: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو خط لکھا جس میں انہیں حکم دیا کہ وہ مکہ چھوڑ کر ان کی خدمت میں حاضر ہوں اور مکہ میں کم سے کم قیام کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ خط ابوواقدیشی لے کر مولا علی علیہ السلام کے پاس آیا تھا۔ جب آپ علیہ السلام کو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خط موصول ہوا تو آپ علیہ السلام نے روانگی کی تیاری کی۔ ابن شہر آشوب لکھتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امانتوں کی واپسی کیلئے مولائے کائنات علی علیہ السلام کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا کیونکہ آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی امانت داری کی وجہ سے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اپنی امانتیں رکھا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے تمام لوگوں کو ان کی امانتیں واپس کیں۔ جب اس مرحلہ سے فارغ ہوئے تو آپ علیہ السلام کعبہ کی چھت پر چڑھے اور بلند آواز سے اعلان کیا:
لوگو! کیا تم میں سے کسی نے میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے امانت لینی ہے؟
کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جس سے میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی وصیت کی ہو؟
کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جس سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی وعدہ کیا ہو؟
جب اس اعلان کے بعد کسی نے آپ علیہ السلام سے رجوع نہ کیا تو پھر آپ علیہ السلام ہجرت کر کے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچ گئے۔
ابن شہر آشوب مزید لکھتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت کے وقت علی علیہ السلام کو وصیت کی تھی کہ وہ آپ کا قرض ادا کریں اور لوگوں کی امانتیں انہیں واپس کریں۔ حضرت علی علیہ السلام ان تمام کاموں سے فراغت پانے کے بعد رات کے وقت مکہ سے روانہ ہوئے تو آپ علیہ السلام کے قافلہ میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور آپ علیہ السلام کے والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد اور فاطمہ بنت زبیر بن عبدالمطلب شامل تھیں۔ ایک قول یہ ہے کہ وہ جناعہ بنت زبیر تھیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلام ایمن بن ابی ایمن آپ علیہ السلام کا قاصد ابوواقد بھی آپ علیہ السلام کے قافلے میں شامل تھے۔ اونٹوں کا سفر شروع ہوا۔ ابو واقد نے اونٹوں کو تیری سے دوڑانا شروع کیا تو حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: اونٹ مت دوڑاؤ۔ ان پر خواتین سوار ہیں اور وہ انتہائی کمزور ہیں۔
ابوواقد نے کہا: میں اس لیے تیزی کررہا ہوں تاکہ کوئی تعاقب کرنے والا ہمیں نہ پا لے۔
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: آرام آرام سے اونٹ چلاؤ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے خبر دی تھی کہ میرے بعد مشرکین تمہیں کوئی بڑی اذیت نہیں دے سکیں گے اس کے بعد ابو واقد نے اونٹوں کی رفتار دھیمی کر دی۔
آپ علیہ السلام نے سر راہ ان اشعار کو پڑھا:
“اللہ کے علاوہ کسی کے پاس کوئی قوت نہیں ہے لہذا اپنا گمان دور کر دو اور ہر اہم معاملہ میں بندوں کا پروردگار تیری کفایت کرے گا۔”
مہاجرین کا یہ مختصر قافلہ محو سفر تھا جب یہ قافلہ مقام ضجنان کے قریب پہنچا تو قریش کے سات افراد ڈاٹھے باندھے ہوئے نمودار ہوئے۔ ان کے ساتھ حارث بن امیہ کا غلام”جناح” بھی شامل تھا۔
حضرت علی علیہ السلام نے ایمن اور ابو واقد سے فرمایا: اونٹ بیٹھا دو اور ان زانو باندھ دو۔ آپ علیہ السلام نے پردہ دار بیویوں کو محملوں سے اتارا اور انہیں ایک محفوظ مقام پر بٹھایا پھر آپ علیہ السلام تلوار علم کر کے ان کے مقابلے میں تشریف لے گئے۔ وہ کہنے لگے: کیا آپ علیہ السلام نے یہ سمجھ لیا تھا کہ آپ ہمارے ہاتھوں سے بچ کر نکل جاؤ گے؟ بہتری اسی میں ہے کہ آپ علیہ السلام واپس مکہ چلے جاؤ۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: اگر میں مکہ نہ جانا چاہوں تو پھر؟
انھوں نے کہا: ہم آپ علیہ السلام کو جبری طور پر اپنے ساتھ لے جائیں گے یہ کہا اور وہ اونٹوں اور پردہ دار خواتین کی طرف بڑھے، تاکہ انہیں خوفزدہ کریں۔
حضرت علی علیہ السلام درمیان میں کھڑے ہو گئے جناح نے تلوار سے آپ علیہ السلام پر وار کرنا چاہا تو آپ علیہ السلام نے اس کے وار کو ناکام کیا یا پھر آپ علیہ السلام نے اس پر حملہ کیا اور اس کی گردن اڑا دی اور اس کے گھوڑے کی ٹانگوں کو زخمی کیا۔ اس وقت آپ علیہ السلام نے یہ رجز پڑھا:
“شرک کا انکار کرنے والے وہ جاہد کا راستہ چھوڑ دو۔ میں قسم کھا چکا ہوں کہ واحد لاشریک کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہیں کروں گا۔”
شیر خدا کے تیور دیکھ کر قریش کے بدمعاش بھاگ گئے اور کہا: اے فرزند ابو طالب علیہ السلام! آج تم ہمارے ہاتھوں سے نکل گئے ہو۔
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: اپنے ابن عم کے پاس یثرب جا رہا ہوں جو چاہتا ہے کہ میں اس کا گوشت ادھیڑوں اور اس کا خون بہاؤں تو وہ میرے تعاقب میں آئے یا میرے قریب ہو کر دیکھے۔ پھر آپ علیہ السلام نے ایمن اور ابو واقد سے فرمایا: اونٹوں کو کھول دو۔ آپ علیہ السلام نے بیبیوں کو سوار کرایا پھر وہاں سے روانہ ہوئے یہاں تک کہ ضجنان پہنچے۔ آپ علیہ السلام نے وہاں ایک دن اور ایک رات قیام کیا۔ اس دوران کچھ کمزور مومنین بھی آپ علیہ السلام کے قافلہ میں شامل ہوئے۔ ان میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کنیز ام ایمن بھی شامل تھی۔
حضرت علی علیہ السلام اور فواطم ثلاثہ (حضرت فاطمہ زہرا بنت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، فاطمہ بنت اسد اور فاطمہ بنت زبیر) ساری رات نماز میں مصروف رہے اور قیام و قعود اور لیٹ کر خدا کو یاد کرتے رہے یہاں تک کہ فجر طلوع ہوئی حضرت علی علیہ السلام نے نماز فجر پڑھائی پھر ضجنان اسی روانہ ہوئے اور ہر منزل پر خدا کا ذکر کرتے رہے۔ خدا نے اس قافلہ کی کیفیت کو واحی کے ذریعے سے اپنے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل کیا اور ان کے حق میں سورۂ آل عمران آیت 191 تا 195 کی آیات نازل ہوئیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ سے باہر قبا میں قیام کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی علیہ السلام کی آمد کا انتظار کرنے لگے۔
حضرت ابوبکر نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ چلیں، مدینہ کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد پر خوش ہیں اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منتظر ہیں۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتظار نہ کریں۔ میرا خیال ہے کہ حضرت علی علیہ السلام ایک ماہ تک نہیں آئیں گے۔
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا حضرت علی علیہ السلام بہت جلد ہمارے پاس آجائیں گے جب تک میرا بھائی، میرا ابن عم اور میرے خاندان میں سے مجھ کو زیادہ محبوب فرد جس نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے میری جان بچائی ہے، وہ نہ آجائے تب تک میں یہاں سے مدینہ نہیں جاؤں گا۔
الغرض نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پندرہ دن تک قبا میں قیام کیا پھر پندرہویں دن حضرت علی علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کو لے کر مدینہ پہنچے۔ مسلسل پیدل سفر کرنے کی وجہ سے آپ علیہ السلام کے پاؤں متورم ہوچکے تھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو گلے لگایا اور انکے زخمی اور متورم پاؤں کو دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آبدیدہ ہو گئے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: اپنا ہاتھ آگے کرو۔
حضرت علی علیہ السلام نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر اپنا لعاب دہن لگایا۔ حضرت علی علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لعاب دہن کو اپنے پاؤں پر ملا تو اسی وقت پاؤں کا ورم ختم ہوگیا پھر کبھی آپ علیہ السلام کے پاؤں متورم نہیں ہوۓ۔
Add Comment