سیرت اہل بیت علیھم السلام

اسلامی تاریخ کے واقعہ کربلا میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا بن امام علی علیہ السلام کی شخصیت کی تجلی گاہ

 حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا صبر:

جو جوان کربلا میں شہید ہوئے اور ان کی والدہ بھی کربلا میں موجود تھیں ان میں سے عون بن عبداللہ بن جعفر جو زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کے فرزند ہیں یعنی حضرت زینب سلام اللہ علیہا اپنے بڑے بیٹے کی شھادت کی چشم دید گواہ ہیں۔ حضرت زینب سلام اللہ کے شوہر عبداللہ بن جعفر سے کربلا میں دو فرزند موجود تھے ان میں سے ایک حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے فرزند تھے اور دوسرے بیٹے ایک اور بیوی سے تھے، دونوں شہید ہوئے، اس طرح جناب حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے فرزند بھی شہید ہوئے، ایک اور حیران کن بات جو ہمیں اس عظیم شخصیت کی تربیت میں نظر آتی ہے اور کسی مقتل میں اس کا ذکر نہیں ہوا کہ جناب حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیھا نے قبل از شہادت یا بعد از شہادت اپنے بیٹے کا نام نہیں لیا انہوں نے سوچا کہ یہ بھی ایک قسم کی بے ادبی ہے یعنی اے حسین بن امام علی علیہ السلام میرا فرزند اس قابل نہیں کہ آپ علیہ السلام پر فدا ہو، مثال کے طور پر جب حضرت علی اکبر علیہ السلام کی شہادت ہوئی تو جناب زینب سلام اللہ علیھا خیمہ سے باہر آ گئیں اور فریاد بلند کی۔ آپ کی فریاد کو فضا نے اپنے گھیرے میں لے لیا لیکن اپنے فرزند کی شہادت پر انہوں نے ایسا نہیں کہا۔

حضرت زینب سلام اللہ علیہا کافلہ سالار:

امام حسین علیہ السلام اپنی اہل بیت علیہ السلام کے ہمراہ عازم سفر ہیں تاکہ وہ بھی اس عظیم تاریخ میں اپنی ذمہ داری ادا کر سکیں اس لیے کہ وہ اس عظیم تاریخ کے بنانے میں اپنا مستقیم کردار ادا کرسکیں جناب حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی قافلہ سالاری کے ذریعے اپنے مدار سے خارج ہوئے بغیر۔

حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا کردار:

عاشورا کی سہ پہر سے جناب زینب سلام اللہ علیہا نظر آنے لگتی ہیں اس کے بعد سے ان کی ذمہ داری شروع ہوگئی وہ قافلہ کی سردار ہیں کیونکہ اس وقت مرد صرف امام زین العابدین علیہ السلام جو سخت بیمار ہیں اور ایک تیماردار کے محتاج ہیں یہاں تک کہ دشمنوں نے ابن زیاد کے عمومی حکم کے مطابق امام حسین علیہ السلام کی اولاد میں کوئی مرد باقی نہ رہنے دیا جائے چند بار یہ جملہ کہا کہ امام زین العابدین علیہ السلام کو بھی قتل کرڈالا لیکن پھر خود ہی کہنے لگے: یہ خود ہی مرنے والا ہے چنانچہ یہ بھی خدا کی حکمت و مصلحت تھی کہ امام زین العابدین علیہ السلام اس طریقے سے بچ گئے اور امام حسین بن امام علی علیہ السلام کی پاک نسل باقی رہ گئی جناب زینب سلام اللہ علیہا کا ایک کام امام زین العابدین علیہ السلام کی تیمارداری کرنا تھی۔

حضرت زینب سلام اللہ علیہا طاغوت کی اسارت میں:

امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا: ہم بارہ افراد تھے اور ہم سب 12 افراد کو ہی زنجیر سے باندھ دیا گیا تھا زنجیر کا ایک سرا میرے بازو میں اور دوسرے سرے سے جناب زینب سلام اللہ علیہا کو باندھا گیا تھا۔

حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا دردناک مرثیہ:

گیارہ محرم کو عصر کے وقت قیدی لائے گئے اور انہیں ایسی سواریوں پر بٹھایا گیا جن کی کاٹھیاں لکڑی کی تھیں اور یہ پابندی لگا دی گئی کہ قیدی کاٹھیوں پر کوئی کپڑا نہ ڈالیں تاکہ انہیں تکلیف پہنچائی جا سکے پھر اہل بیت علیہ السلام نے ایک خواہش ظاہر کی جو منظور کر لی گئی وہ خواہش یہ تھی: انہوں نے کہا تمہیں خدا کی قسم ہے ہمیں اس جگہ سے لے چلو ہمیں امام حسین علیہ السلام کی قتل گاہ سے ہو کر گزارو کیونکہ ہم اپنے عزیزوں کو آخری بار الوداع کہنا چاہتے ہیں قیدیوں میں سے صرف امام زین العابدین علیہ السلام تھے جن کے پاؤں بیماری کی وجہ سے سواری کے پیٹ کے ساتھ باندھ دیے گئے تھے دوسرے قیدی سواریوں پر بندھے بیٹھے تھے جب یہ لوگ مقتل گاہ پہنچے تو انہوں نے بے اختیار اپنے آپ کو سواریوں سے نیچے گرا لیا حضرت زینب سلام اللہ علیہا سید الشہداء کے جسم مقدس کے قریب پہنچیں انہیں ایسی حالت میں پایا کہ اس سے قبل نہیں دیکھا تھا وہ حضرت کا بے سر اور بے لباس بدن دیکھتی ہیں اس کو مخاطب کر کے کہتی ہیں: ایسا دل سوز بین کرنے لگیں کہ فائبلت واللہ کل عدووصدیق، کہ سارے دوست و دشمن رو دئیے۔

پہلی مجلس:

امام حسین علیہ السلام کے غم میں پہلی بار جناب زینب سلام اللہ نے مجلس قائم کی لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے فرائض سے بھی غافل نہیں ہیں امام زین العابدین علیہ السلام کی تیمار داری انہی کے ذمے ہے آپ نے امام زین العابدین علیہ السلام کی طرف نظر اٹھائی تو دیکھا کہ بابا کا یہ حال دیکھ کر حضرت علیہ السلام اس قدر بے چین ہو گئے کہ گویا آپ علیہ السلام کی جان نکلنے والی ہے فوراً بھائی کی لاش کو چھوڑ کر امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس پہنچتی ہیں۔ اے میرے بھتیجے! تمہاری کیسی حالت ہوگئی کہ جیسے تمہارے جسم سے روح پرواز کرنے والی ہو؟ پھوپھی جان! اپنے عزیز و اقارباء کی لاشیں دیکھ کر یہ کیسے ممکن ہے مجھے تکلیف نہ ہو جناب حضرت زینب سلام اللہ علیہا اس وقت امام زین العابدین علیہ السلام کو تسلی دینے لگتی ہیں۔

عاشورا سے جناب زینب سلام اللہ علیہا آگاہ تھیں:

جناب ام ایمن نہایت با عظمت اور باوقار خاتون ہیں جو کہ ظاہراً جناب خدیجہ کبریٰ کی کنیز تھیں، بعد میں آزاد ہوگئیں ہیں لیکن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں ہی رہنے لگی تھیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی بہت عزت کرتے تھے، یہ ایسی ہستی ہیں جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث بیان کرتی ہیں، یہ ضعیفہ برسوں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں رہیں ، انہوں نے جناب زینب سلام اللہ علیہا کے سامنے کی ایک حدیث بیان کی تھی کیوں کہ اس حدیث کا تعلق اس خاندان کے آئندہ واقعات سے تھا اس لیے جناب زینب سلام اللہ علیہا حضرت علی علیہ السلام کی عمر کے آخری حصے میں اطمینان کرنے کے لئے آپ کے پاس آئیں کہ جو ام ایمن نے کہا ہے وہ سو فیصد درست ہے بابا جان! میں نے ام ایمن سے یہ حدیث سنی ہے میں یہ حدیث ایک بار آپ علیہ السلام سے سننا چاہتی ہوں تاکہ تصدیق ہو جائے کہ یہ صحیح ہے؟ آپ علیہ السلام نے پوری حدیث بیان کی آپ علیہ السلام کے والد یعنی حضرت علی علیہ السلام نے تائید کی اور فرمایا ام ایمن کا کہنا سچ ہے یہ بات صحیح ہے۔

حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے حدیث بیان کی:

جناب زینب سلام اللہ علیہا اس وقت یہی حدیث امام زین العابدین علیہ السلام کے سامنے بیان فرماتی ہیں اس حدیث میں یہ ہے کہ اس واقع میں ایک نقطہ پوشیدہ ہے کہ امام حسین علیہ السلام اسی جگہ بے کفن دفن ہوں گے جہاں پر تم اس وقت ان کا جسم دیکھ رہے ہو اور اسی جگہ امام حسین علیہ السلام کی قبر کا طواف ہوا کرے گا۔
آنے والے دور میں یہ جگہ محبت کرنے والوں کا کعبہ بن جائے گی امام زین العابدین علیہ السلام کے سامنے جناب زینب سلام اللہ علیہا روایت کرتی ہیں کہ جنہیں گیارہ تاریخ تھی کہ ظہر کے بعد عمر سعد اپنے سپاہیوں کی لاشیں دفنانے کے لیے وہیں رہ گیا لیکن امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کی لاشیں اسی طرح پڑی رہ گئیں، اس کی قیدیوں کو سیدھا کربلا سے نجف کے لئے جو تقریباً بارہ فرسخ ہے روانہ کر دیا گیا ، تربیت یہی رکھی گئی کہ بارہ تاریخ کے دن قیدیوں کو ڈھول تماشہ اور شہنائیوں کی گونج میں اور فتح کی شان و شوکت کے ساتھ کوفہ لے جائیں گے اور اپنے خیال کے مطابق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان پر آخری ضرب لگائیں گے۔

کربلا میں جناب زینب سلام اللہ علیہا کا رشد:

کربلا کے حادثے نے زینب سلام اللہ علیہا کی شخصیت اور اجاگر کر دی مسلمان خواتین میں ایک خاتون ایسی ہے کہ اسلام کا سرمایہ افتخار ہے وہ زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا ہیں۔ تاریخ بتلاتی ہے کہ کربلا کے منفرد مصائب اور خونی حادثے نے جناب زینب سلام اللہ علیہا کو فلادی قوت عطا کر دے دی ، ہیں جو زینب سلام اللہ علیہا مدینے سے چلی تھی جب یہی زینب سلام اللہ علیہا شام سے مدینہ واپس آتی تو وہ پہلے والی زینب سلام اللہ علیہا نہ تھی، جو زینب سلام اللہ علیہا شام سے واپس آئی وہ رشد یافتہ اور خالص ترین زینب سلام اللہ علیہا تھی تاکہ جو حالات اسیر ہونے کے دوران پیش آئے یا جب میدان کربلا میں آپ علیہ السلام کے برادر ابھی زندہ تھے اور جناب زینب سلام اللہ علیہا پر کوئی سے ذمہ داری نہیں آئی تھی اس زینب سلام اللہ علیہا میں بھی فرق تھا۔

حضرت علی علیہ السلام کے لہجے میں زینب سلام اللہ علیہا کا خطبہ:

اسیروں کو روانہ کر دیا گیا اور اس حالت میں لے چلے کہ جناب زینب سلام اللہ علیہا غالباً نویں محرم سے بالکل نہیں سوئی تھیں سب سے پہلے سر لے جائے گئے، نجانے کتنا دن چڑھ آیا تھا سورج نکلنے کے قریب قریب دو تین ساعتیں گزر چکی تھیں جب قیدی کوفہ میں داخل ہوئے حکم دیا گیا کہ ان سروں کو ان کے استقبال کے لئے لے جائیں تاکہ ساتھ آئیں، اس وقت ایسی عجیب حالت تھی کہ بیان نہیں کی جاسکتی کوفہ کے دروازے پر حضرت امام علی علیہ السلام فاطمہ سلام اللہ علیہا کی بیٹی یہاں ظاہر ہوتی ہیں یہ با شخصیت خاتون ایسا خطبہ دیتی ہے کہ راویوں نے لکھا ہے کہ زینب سلام اللہ علیہا نے انتہائی مناسب موقع پر ایک ارشاد کیا تاریخ کی عبارت یہ ہے:
یہ شور و غل کے باعث آواز سنی نہیں جا سکتی تھی یکدم خاموشی چھا گئی کہ جیسے سینوں میں سانسیں رک گئیں سواریاں رک گئیں، جب لوگ کھڑے ہوگئے تو سواریاں بھی رک گئیں جناب زینب سلام اللہ علیہا نے تقریر کی حضرت علی علیہ السلام بیس سال پہلے کوفہ میں خلیفہ تھے اور آپ نے اپنی خلافت کے تقریبا پانچ سال تک کافی تقریریں کیں تھیں ، لوگوں میں حضرت علی علیہ السلام کا فن خطابت  تھاض المثل تھا، راوی کہتا ہے ایسا معلوم ہوا جیسے حضرت زینب سلام اللہ علیہا حضرت علی علیہ السلام کے لہجے میں بول رہی ہوں۔ جیسے حضرت علی علیہ السلام زندہ ہو گئے ہوں اور ان کے الفاظ جناب زینب سلام اللہ علیہا کی زبان سے ادا ہو رہے ہوں جیسے ہی جناب زینب سلام اللہ علیہا نے تقریر کی جو زیادہ طولانی نہیں تھی دس بارہ سطروں سے زیادہ نہیں تھی ختم ہوئی راوی کہتا ہے کہ میں نے لوگوں کو دیکھا کہ سب کے سب دانتوں تلے انگلیاں دبائے ہوئے تھے عورت کی جو شکل اسلام چاہتا ہے وہ یہ ہے، حیا، عفت و پاکیزگی اور تقدس میں ڈوبی ہوئی ایک شخصیت اس دلیل کی بنیاد پر کربلا کی تاریخ نہ مؤنث ہے نہ مذکر اس کے بنانے میں مرد کا کردار بھی موثر ہے اور عورت کا بھی لیکن اپنے دائرے کے اندر رہتے ہوئے یہ تاریخ دونوں کے ہاتھوں سے بنی ہے۔

حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا معروف خطبہ:

حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اپنے معروف خطبہ میں کوفیوں کی اس کوتاہی اور حق کی حمایت نہ کرنے پر سرزنش کی ہے۔
اے کوفیو! اے دھوکے بازوں! اور بے وفا، اے فریب کارو! کیوں رو رہے ہو؟ پس تمہارے یہ آنسو خشک نہ ہونے پائیں اور تمہاری یہ نالہ و فریاد ختم نہ ہو ،تمہاری مثال اس خاتون کی طرح ہے جو کپاس سے دھاگہ بناتی تھی اور پھر کپاس کی صورت میں لے آئی جسے اس نے بنا ہوتا تھا پھر کھول دیتی تھی۔

حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی عظمت کا عروج:

تحریک حسینی میں جس ہستی نے سب سے زیادہ درس لیا جس نے روح حسینی علیہ السلام کے سائے میں اس تحریک کو آگے بڑھایا وہ جناب زینب سلام اللہ علیہا آپ علیہ السلام کی بڑی بہن ہیں یقیناً یہ ایک بڑا عجیب موضوع ہے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی وہ عظمت جو انہوں نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی آغوش سے پائی اور وہ تربیت جو امام علی علیہ السلام نے دی اس سے پہلے کی تھی کربلا سے پہلے والی زینب سلام اللہ علیہا میں اور بعد والی زینب سلام اللہ علیہا میں فرق تھا یعنی کربلا کے بعد والی زینب سلام اللہ علیہا کی عظمت بہت بلند ہوچکی تھی۔

اہل دل کا کعبہ:

امام حسین علیہ السلام کی قبر کی خاک اہل دل کے لیے کعبہ ہے جناب زینب سلام اللہ علیہا نے یزید سے یہی کہا تھا تم سے غلطی ہوئی ہے:
تم نے جو بھی منصوبہ بنایا ہے اس پر عمل کر لو لیکن اطمینان رکھو کک تم میرے بھائی کو نہ قتل کر سکتے ہو اور نہ مار سکتے ہو میرے بھائی کی زندگی اور طرح کی ہے، وہ مرا نہیں بلکہ زندہ ہو گیا ہے۔
اس دور کے مرثیہ گو شاعر ہمارے دور کے مرثیہ گو کی مانند نہیں تھے جیسے کمیت مرثیہ گو تھے دعبل خزاعی مرثیہ گو تھا یہی دعبل خزاعی تھا جو اس طرح مرثیہ کہتا تھا کہ اموی اور عباسی خلفاء کے تخت متزلزل نظر آتے تھے۔
وہ مرثیہ گو شاعر کی مانند نہ تھے ہمارے شعراء تو امام حسین بن امام علی علیہ السلام کی شہادت کا الزام زمین و آسمان کو قرار دیتے ہیں اس طرح کے شاعر نہیں تھے وہ ایک قصیدہ کہتا تھا اور دنیا کو ہلا کر رکھ دیتا تھا۔

Add Comment

Click here to post a comment