گریہ و زاری

امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے فرزند علی قاسم علیہ السلام اور عبداللہ بن الحسن علیہ السلام کے مصائب

 امام حسن علیہ السلام کے دو فرزند تھے:

تاریخ میں لکھا ہے امام حسن بن علی علیہ السلام کے کئی فرزند تھے جو امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ تھے ان میں سے ایک جناب علی قاسم علیہ السلام تھے امام حسن علیہ السلام کا ایک فرزند 10 سال کا تھا جو آپ علیہ السلام کا آخری فرزند تھا ، اس بچے کو شاید اپنے والد یاد نہیں تھے امام علیہ السلام کی شہادت کے وقت اس بچے کی عمر چند ماہ تھی یہ بچہ امام حسین علیہ السلام کے گھر بڑا ہوا تھا تھا امام حسین علیہ السلام امام حسن علیہ السلام کی اولاد پر بہت مہربان تھے شاید اپنی اولاد سے بھی زیادہ ان پر مہربان تھے کیونکہ یہ یتیم تھے باپ کا سایہ سر پر نہیں تھا ، اس بچے کا نام عبداللہ تھا اور وہ آقا علیہ السلام سے بہت محبت کرتا تھا۔

شہد سے زیادہ میٹھی موت:

شب عاشور ایک بچہ مجلس کے ایک گوشے میں بیٹھا ہوا تھا کہ جس کی عمر 13 سال سے زیادہ نہیں تھی اس بچے کو شک تھا کہ کل ہونے والے معرکے میں اس کا نام بھی ہوگا یا نہیں حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ جو بھی یہاں موجود ہیں شامل ہوں گے۔ ممکن ہے میں چونکہ بچہ اور نابالغ ہوں میں شاید ان کا مخاطب نہ ہو سکوں، امام حسین علیہ السلام کی طرف دیکھا اور کہا: یاعماہ! چچا جان! آیا کل میں بھی قتل ہونے والوں میں شامل ہوں؟
تاریخ نے لکھا ہے: امام حسین علیہ السلام پر رقت طاری ہوگئی اور اس بچے کو جناب قاسم بن الحسن علیہ السلام کہتے تھے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ ایک سوال کر دیا اے فرزند برادرم! تم پہلے میرے سوال کا جواب دو تمہارے نزدیک موت کیسی ہے اس کا ذائقہ اور مزہ کیسا ہے؟ عرض کیا: میرے لیے شہد سے زیادہ شیریں ہے۔ آپ علیہ السلام اگر مجھے یہ بتا دیں کہ میں بھی کل شہید ہوجاؤں گا تو میرے لئے ایک بہت بڑی خوشخبری ہو گی۔ فرمایا: ہاں۔ لیکن اس کے بعد سخت تکلیف میں مبتلا ہو جاؤ گے۔
اس نے کہا: خدا کا شکر ہے الحمد اللہ کہ ایسا حادثہ رونما ہوگا۔

حضرت قاسم علیہ السلام کو اجازت مل گئی:

حضرت علی اکبر کی شہادت کے بعد یہی تیرا سالہ بچہ امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا چونکہ تیرا سال عمر تھی اور نابالغ بھی تھے، جو اسلحہ زیب تن کیا وہ بڑا تھا اس طرح ذرہ بھی لوگوں نے بڑوں کے لیے بنائے تھی نہ کہ بچوں کے لئے اسی طرح خود لوہے کی ٹوپی بھی بڑے لوگوں کے لئے مناسب تھی نہ کہ چھوٹے بچوں کے لئے، عرض کیا چچا جان! اب میری باری ہے میدان جنگ میں جانے کی اجازت دیں۔ روز عاشور کوئی بھی امام حسین علیہ السلام کی اجازت کے بغیر میدان جنگ میں نہیں گیا جو بھی آتا پہلے سلام عرض کرتا اسلام و علیک یا امام حسین علیہ السلام مجھے اجازت دیجیے۔
امام حسین علیہ السلام نے اتنی جلدی اجازت نہیں دی بلکہ رونے لگے قاسم علیہ السلام اور چچا دونوں نے ایک دوسرے کو آغوش میں لے کر رونا شروع کر دیا تاریخ نے لکھا ہے قاسم نے امام حسین علیہ السلام کے ہاتھ اور پاؤں کے بوسے لینے شروع کر دیئے۔ یہ اس لیے نہیں تھا کہ تاریخ بہتر فیصلہ کرے وہ اصرار کر رہا ہے اور امام حسین علیہ السلام انکار ،امام حسین علیہ السلام چاہتے ہیں کہ قاسم کو اجازت دیں اور یہ کہہ دیں کہ جانا چاہو تو چلے جاؤ، لیکن لفظ کہے بغیر بلکہ ایک مرتبہ دونوں بازو پھیلا دیئے اور کہا آؤ فرزند برادرم! تمہیں خدا حافظ کہنا چاہتا ہوں۔
علی قاسم نے اپنے بازو امام حسین علیہ السلام کی گردن میں ڈال دیئے اور امام حسین علیہ السلام نے اپنے بازو علی قاسم علیہ السلام کی گردن میں ڈال دیئے تاریخ نے لکھا ہے کہ چچا اور بھتیجے نے اس قدر گریا کیا کہ دونوں بے حال ہو کر ایک دوسرے سے جدا ہوئے یہ بچہ فوراً اپنے گھوڑے پر سوار ہو گیا۔

میں امام حسن علیہ السلام کا بیٹا ہوں:

عمر سعد کے لشکر میں ایک راوی تھا وہ کہتا ہے ایک مرتبہ ہم نے ایک بچے کو دیکھا جو گھوڑے پر سوار تھا ، اس کے پاؤں بھی رکاب تک نہیں پہنچ رہے تھے عام جوتے پہنے ہوئے تھے اور ایک جوتے کا بند کھلا ہوا تھا۔ اس نے کہا یہ یاد نہیں کہ دائیں پاؤں تھا یا بایاں پاؤں۔ اس کی تعبیر کے مطابق یہ بچہ چاند کا ٹکڑا ہو، اس قدر خوبصورت تھا۔
یہی راوی کہتاہے جب قاسم علیہ السلام آرہے تھے ابھی تک آنکھوں سے آنسو رواں تھے رسم یہ تھی کہ افراد اپنا تعارف کرواتے تھے کہ میں کون ہوں؟ سب حیران تھے کہ یہ بچہ کون ہے، جیسے ہی لشکر کے سامنے کھڑا تو اپنی آواز بلند کی۔
لوگو! تم اگر مجھے نہیں جانتے ،تو میں پسر حسن علیہ السلام بن علی علیہ السلام بن ابی طالب علیہ السلام ہوں۔
یہ امام حسین علیہ السلام جسے تم یہاں دیکھ رہے ہو جسے تم نے گھیر رکھا ہے میرے چچا امام حسین علیہ السلام بن علی علیہ السلام ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔

چچا جان و قاسم کی فریاد کو پہنچیں:

ظہر عاشورا ہے قاسم علیہ السلام میدان میں ہیں کیونکہ ابھی بچے ہیں، اسلحہ جسم کی مناسبت سے نہیں ہے لیکن اس کے باوجود جیسے شیر کا بچہ ہوں ،شجاعت کے جوہردکھائے ایک کاری ضرب سر پر لگی تو پھر گھوڑے پر یہ بچہ سنبھل نہ سکا امام حسین علیہ السلام کی نگاہیں اسی بچے پر تھیں، آپ علیہ السلام خود بھی گھوڑے پر سوار تھے لگام آپ علیہ السلام کے ہاتھ میں تھی، گویا انتظار کر رہے تھے ،ناگہاں فریاد بلند ہوئی یاعماہ!اے چچا جان! میری مدد کو آئیے۔

امام حسین علیہ السلام کی جانکاہ فریاد:

مؤرخین نے لکھا ہے امام حسین علیہ السلام اس طرح قاسم علیہ السلام کی طرف روانہ ہوئے جیسے باز اپنے شکار کی طرف لپکتا ہے ،کوئی نہ سمجھ سکا اتنی تیزی سے گھوڑے سے نیچے آئے اور تیزی سے قاسم علیہ السلام کی طرف گئے دشمن کے گروہ تقریباً دو سو افراد جناب قاسم علیہ اسلام کو گھیرے میں لیا ہوا تھا اس لئے کے اس طفل کا سر تن سے جدا کرسکیں یکدم متوجہ ہوئے کہ امام حسین علیہ السلام تیزی سے آ رہے ہیں لومڑیوں کے غول کی مانند جب وہ شیر کو دیکھ لیں فرار کرنے لگے، جو جناب قاسم علیہ السلام کا سر تن سے جدا کرنا چاہتا تھا اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں کے نیچے آ کر جہنم واصل ہوگیا۔
اس قدر گردوغبار بلند ہوگی کہ کوئی بھی نہ سمجھ سکا کہ کیا ہو رہا ہے دوست و دشمن سب اس سے شش و پنج میں تھے گرد و غبار بیٹھ گیا تو سب نے دیکھا کہ امام حسین علیہ السلام قاسم علیہ وسلم کی بالین بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ کا سر اپنے دامن میں لے رکھا ہے، امام حسین علیہ السلام کی فریاد سب نے سنی۔ اے فرزند برادرم! تمہارے چچا پر کتنا سخت اور ناگوار ہے کہ تم فریاد کرو اور چچا جان کہو اور میں تمھاری مدد نہ کر سکوں، تمہاری لاش پر نہ پہنچ سکوں اگر پہنچ جاؤں، اگر پہنچ جاؤں تو تمہاری آرزو پوری نہ کر سکوں، تمہارے چچا پر کتنا مشکل وقت آن پہنچا ہے۔

قاسم علیہ السلام کے آخری لمحات:

جناب قاسم علیہ السلام اپنی زندگی کے آخری لمحات طے کر رہے تھے۔ درد کی شدت کی وجہ سے ایڑیاں رگڑ رہے تھے۔ اس وقت سنا گیا کہ امام حسین علیہ السلام نے یہ کہا: اے فرزند برادرم! مجھ پر یہ کتنا سخت ہے تم فریاد کرو چچا جان! لیکن چچا کوئی جواب نہ دے سکے ، مجھ پر یہ کس قدر ناگوار ہے کہ تمہارے لاش پر پہنچوں لیکن تمہاری مدد نہ کر سکوں۔

آخری دردناک وداع:

راوی کہتا ہے: جناب قاسم علیہ السلام کا سر امام حسین علیہ السلام اپنے دامن لئے ہوئے ہیں درد کی شدت سے جناب قاسم علیہ السلام ایڑیاں رگڑ رہے ہیں اس دوران فریاد بلند کی: اور جان جان آفرین کے سپرد کردی، ایک مرتبہ سب نے دیکھا امام حسین علیہ السلام نے قاسم علیہ السلام کی لاش کو اٹھایا اور خیمہ گاہ کی طرف چل پڑے۔ بڑا عجیب اور عظیم لمحہ ہے جب قاسم علیہ السلام میدان جنگ آئے تو امام حسین علیہ السلام کا دل چاہتا تھا کہ اسے اجازت نہ دیں۔ جب اجازت دے دی تب دونوں نے ایک دوسرے کی گردن میں باہیں ڈال دیں، اتنا روۓ کہ بے حال ہو گئے یہاں منظر اس کے برعکس ہے یعنی کچھ دیر پہلے جناب قاسم علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام نے ایک دوسرے کی گردن میں باہیں ڈال ہوئی تھیں لیکن اب امام حسین علیہ السلام نے قاسم علیہ السلام کو اٹھایا ہوا ہے اور جناب قاسم علیہ السلام کے بازو نیچے لٹک گئے کیونکہ اب بدن میں جان نہیں رہی۔

عبداللہ بن الحسن علیہ السلام کا مرثیہ:

جناب قاسم علیہ السلام کا ایک چھوٹا بھائی ہے جس کا نام عبداللہ ہے۔امام حسین علیہ السلام نے اس بچے کو اپنے نے بہن زینب علیہ السلام کے سپرد کر دیا تھا جو اس بچے کی پھوپھی اماں بھی تھیں یہ بچے متواتر اس تلاش میں رہتے تھے کہ روز عاشور میدان جنگ میں پہنچ جاتے، لیکن انہیں روک لیا جاتا میں یہ نہیں جانتی کہ کیا ہوا جیسے ہی امام حسین علیہ السلام مقام گاہ پر گرے ، یہ دس سالہ بچہ یک دم خیمہ گاہ سے باہر آگیا، جناب زینب سلام اللہ علیہا اسے پکڑنے کے لیے آئیں تاکہ اسے روک لیں لیکن اس بچے نے اپنا ہاتھ جناب زینب سلام سلام اللہ علیہا سے چرا لیا اور کہا خدا کی قسم! میں اپنے چچا سے جدا نہیں ہو سکتا یہ بچہ بڑی تیزی سے امام حسین علیہ السلام تک پہنچ گیا ،جبکہ امام حسین علیہ السلام میں حرکت کرنے کی طاقت نہ تھی یہ بچہ قریب آتا گیا یہاں تک کہ دامن امام حسین علیہ السلام سے لپٹ گیا، امام حسین علیہ السلام نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا اور اس سے کچھ کہنے لگے، اسی دوران ایک دشمن جو امام حسین علیہ السلام پر وار کرنا چاہتا تھا آ نکلا، اس بچے نے محسوس کرلیا کہ کوئی شخص امام حسین علیہ السلام کو قتل کرنا چاہتا ہے اس بچے نے اسے یہ کہا: اے پسر زناکار! تم میرے چچا کو قتل کرنے آئے ہو؟ خدا کی قسم! میں ایسا نہیں ہونے دوں گا اس نے جیسے ہی شمشیر بلند کی اس بچے نے اپنے بازو کو ڈھال بنا دیا جیسے ہی تلوار نیچے آئی جس کے نتیجے میں اس بچے کے دونوں بازو کٹ کر لٹک گئے اس وقت اس بچے نے فریاد بلند کی چچا جان! دیکھو یہ کیا ہوا؟

عبد اللہ بن الحسن علیہ السلام کی شہادت:

امام حسین علیہ السلام نے بچے کو اپنے آغوش میں لے لیا اور فرمایا اے فرزند برادرم! صبر کرو تم اپنی جد اور بابا سے جا ملو گے۔

Add Comment

Click here to post a comment