امام حسین علیہ السلام کی مصیبت پر گریہ کرنے کا فلسفہ:
سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام سے مربوط مسائل میں سے ایک مسئلہ آپ علیہ السلام پر گریہ و زاری کرنے کا مسئلہ ہے خود رونے اور ہنسنے پر چند زاویوں سے بحث و گفتگو ہونی چاہیے۔
1) سب سے پہلے اس زاویہ سے کہ یہ انسانی خصوصیات میں سے ہے۔
2) جسمانی اور روحانی علت کے لحاظ سے۔
3) اثرات اور عوارض کے لحاظ سے۔
4) اخلاقی لحاظ سے اس پر بحث و گفتگو اور علمائے اخلاق و آداب کے اس بارے میں ثابت شدہ عقیدہ کا بیان۔
5) ہنسنے اور رونے کے اجتماعی اثرات۔
6) رونے اور ہنسنے کی اقسام۔ آیا رونے کی تمام اقسام بری ہیں اور ہنسنے کی تمام اقسام اچھی ہیں یا ایسا نہیں؟
یہ سب رونے اور ہنسنے کے مختلف زاویے ہیں جن پر بحث و گفتگو کرنے کی ضرورت ہے لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام پر گریہ کرنا لذت بخش ہے جو انسانی دل کو پاکیزگی اور روشنی بخشتا ہے۔ رونا اور ہنسنا انسان کی شدید ترین احساسی کیفیت کا مظہر ہوتا ہے جب لوگوں کو رلانے اور ہنسانے کی قدرت کسی کو حاصل ہوجاتی ہے تو درحقیقت وہ ان کے دلوں کا مالک ہوجاتا ہے اور پھر ان سے ان کے میل و محبت سے کھیلتا ہے انسانی قلب کا کام عقل کے کاموں سے ہٹ کر ہے ابھی تک لوگوں کے دلوں کو عقل کے کنٹرول میں لائے بغیر اور بغیر کسی ہدف کے امام حسین علیہ السلام پر رلا کر کھیل کھیلا گیا ہے بلکہ تنہا یہی ہدف رکھنا بھی کافی نہیں نظم و ضبط کا ہونا بھی ضروری ہے۔
یہ ہے درد انسانیت:
اس ضمن بو علی سینا نے ” اشارات” کے آخر میں بطور مثال “بدن کی ورزش کا ذکر کیا ہے، وہ کہتے ہیں جب انسان اپنے بدن کو کھجاتا ہے تو اسے درد تو ہونا ہے” لیکن ساتھ ہی ساتھ اسے ایک لذت بھی حاصل ہوتی ہے اور بدن کو کجھلانا اسے اچھا لگتا ہے یہ درد ہے لیکن یہ درد تلخ نہیں ہے۔ یہ درست ہے وہ دل جلاتا ہے اور آنسو بھی نکل آتے ہیں لیکن یہ غم اور درد مطلوب ہے، آپ جانتے ہیں کہ انسان ہمیشہ رنج و غم سے دور بھاگتا ہے لیکن اگر اسے کوئی یہ کہے کہ فلاں جگہ حضرت سید الشہداء کی مجلس برپا ہے آؤ میرے ساتھ چلو کہ کچھ آنسو بہائیں، تب وہ پوری رضامندی کے ساتھ ایسی مجلس میں شریک ہوتا ہے اور آنسو بہاتا ہے کیونکہ جب تک انسان کا دل نہ دکھے وہ آنسو نہیں بہا تا چنانچہ مجلس سید الشہداء میں ان کے مسائل پر اس کا دل دکھتا ہے اس لیے وہ آنسو بہاتا ہے تو انسان پاکیزگی کا احساس کرتا ہے اور اس درد کے مقابلے میں کوئی اور چیز نہیں آ سکتی تھی یہی درد انسانیت ہے۔
گریہ و زاری کرنے کا مقصد:
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ اطہار علیہ السلام نے کیوں کہا کہ یہ تحریک زندہ رہے۔ لوگ اسے بھول نہ جائیں لوگ امام حسین علیہ السلام کے لیے روتے رہیں۔ اس حکم سے ان کا کیا مقصد تھا؟ ہم نےاس اصلی مقصد کو مسخ کرڈالا ہم نے کہہ دیا کہ یہ بات صرف حضرت سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی تسلی کی خاطر ہے اگرچہ وہ بہشت میں اپنے فرزند ارجمند کے ساتھ ہیں اور اس بات کے لئے بے تاب رہتی ہیں کہ ہم جیسے کم ظرف لوگ کچھ روتے رہیں تاکہ ان کے دل کو تسلی ہوتی رہے۔ کیا خاتون جنت کی توہین ہے اس سے بھی بڑھ کر ہو سکتی ہے؟ کچھ دوسروں نے یہ کہہ دیا کہ امام حسین علیہ السلام کربلا میں ظالموں کے ہاتھوں بے قصور فتل ہوئے یہ بڑی اندو ہناک بات ہے میں بھی کانتی ہوں کہ امام حسین علیہ السلام بے قصور مارے گئے لیکن بس اس قدر کافی ہے؟ صرف یہی؟ یہ شخص چند ظالموں کے ہاتھوں بے تقصیر مارا گیا؟
دنیا میں روزانہ ہزاروں بے قصور آدمی قصورواروں کے ہاتھوں قتل ہو جاتے ہیں کسی دن ہزاروں آدمی دنیا میں ضائع ہو جاتے ہیں اور یہ بات المناک بھی ہے لیکن کیا اس ضائع اور قتل ہونے کی کوئی ایسی قدر و قیمت ہے جو سالہا سال اور دس بیس تیس صدیاں گزرتی رہیں؟
خون امام حسین علیہ السلام کے قطرے قطرے کی اہمیت ہے:
ہم بیٹھے بیٹھے غم مناتے رہیں کہ افسوس امام حسین بن امام علی علیہ السلام کا خون ضائع ہوگیا، امام حسین بن امام علی علیہ السلام بے قصور مارے گئے ،ظالموں کے ہاتھوں مارے گئے لیکن یہ کسی نے کہہ دیا کہ امام حسین بن امام علی علیہ السلام ضائع ہوگئے؟ امام حسین بن امام علی علیہ السلام کا خون رائیگاں گیا؟ اگر دنیا میں تم کوئی ایسا آدمی پاؤ گے جس سے اپنے خون کا ایک قطرہ بھی زیادہ نہیں جانے دیا تو وہ امام حسین بن امام علی علیہ السلام ہیں۔ اگر دنیا میں کوئی تمہیں ایسا آدمی ملےگا جس نے اپنی شخصیت کا ایک پہلو بھی رائیگاں نہیں ہونے دیا وہ امام حسین بن امام علی علیہ السلام ہیں۔ انہوں نے اپنے خون کے ایک ایک قطرے کے اس قدر قیمت لگائی کہ بیان میں نہیں آسکتی۔
اگر دنیا کی یہ اس دولت کا جو ان کی خاطر ہوتی ہے ہم قیامت تک حساب لگائیں تو ان کے خون کے ہر قطرے کی خاطر اربوں کھربوں روپے خرچ بنے گا جس شخص کے قتل ہونے کا یہ نتیجہ نکلا ہو کہ اس کا نام ظالموں کے محلوں کی بنیادیں ہمیشہ کے لئے متزلزل کردے، کیا وہ شخص ضائع ہو گیا؟ کیا اس کا خون رائیگاں بہہ گیا؟ کیا ہم اس بات پر افسوس کریں کہ امام حسین امام علیہ السلام ضائع ہو ہوگئے؟ اے ناداں! تو ضائع ہو گیا۔ میں اور تم دونوں بے مصرف ہیں۔ ہماری عمریں بے مصرف ہیں اپنا غم منا، اپنے پر افسوس کر ،وہ امام حسین بن امام علی علیہ السلام کی توہین کرتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ وہ ضائع ہوگئے امام حسین بن امام علی علیہ السلام وہ شخص ہیں کہ کیا امام حسین بن امام علی علیہ السلام جو شہادت کے آرزو کرتے تھے اپنے ضائع ہونے کی آرزو کرتے تھے؟
با اہمیت آنسو:
وہ آنسو جو ان کے لیے بہاتے ہیں اگر ہماری روح کی مطابقت کے باعث بنتے ہیں تو گویا وہ ایک چھوٹی سی پرواز ہے جو ہماری روح ،حسینی روح کے ساتھ کرتی ہے۔ اگر ان کی ہمت، غیرت ، حریت، ایمان، پرہیزگاری اور توحید کا حقیر سا جزو بھی ہم میں جھلک اٹھے اور پھر ایسا آنسو ہماری آنکھ سے بہنے لگے تو وہ آنسو بیش قیمت ہوگا اگر کہیں کے مکھی کے پر کے برابر ایسے آنسو کا بھی بدل پوری دنیا کے برابر ہوگا تو آپ کو یقین کر لینا چاہئے البتہ وہ آنسو نہ ہو جو امام حسین علیہ السلام کا مقصد ضائع جانے کے لیے بہایا جائے بلکہ وہ آنسو جو امام حسین علیہ السلام کی عظمت کے لیے ہو، امام حسین علیہ السلام کی شخصیت کے لیے ہو، وہ آنسو جو امام حسین علیہ السلام کے ساتھ مطابقت اور ان کی پیروی کرنے کی خاطر بہایا جائے اگرچہ مکھی کے پر کے برابر بھی ہو تو بدلے میں ایک دنیا کے برابر ہوگا۔ لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ راست اور درست ذکر سنیں تاکہ اچھی اور صحیح باتوں سے ان کی فکری سطح بلند ہو اور وہ یہ جان لیں کہ اگر ان کی روح ایک لفظ کو بھی صحیح درک کر لیتی ہے یعنی امام حسین بن امام علی علیہ السلام کی روح کے ساتھ ہم آہنگ ہو گئی تو اس کے نتیجے میں بہنے والا آنسو ایک قطرہ ہی کیوں نہ ہو تو اس کا حقیقت میں بہت بڑا درجہ ہوگا لیکن جو آنسو رجوع قلب کے بغیر بہہ جائے تو وہ سمندر بھی ہو تب بھی بے وقعت ہو گا۔
امام حسین علیہ السلام سے سچی محبت:
یہ ہماری سوچ ہے کہ امام حسین علیہ السلام پر جھوٹ موٹ کے آنسو بہا لینا کافی ہے لیکن امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا یہ سب جھوٹ ہے، اگر امام علی علیہ السلام کی محبت تمہیں عمل کی طرف لے آئے، تو جان لو کہ تمہاری یہ محبت سچی ہے اگر امام حسین علیہ السلام پر گریہ و زاری تجھے عمل کی طرف لے جائے تو پھر تم نے امام حسین علیہ السلام پر گریہ و زاری کی ہے اور تمہارا یہ رونا سچ ہے وگرنہ ایک شیطانی فریب ہے۔
ایک ہیرو کی مصیبت پر رویا جائے:
یہ رثاء اور مصیبت بھولنے نہ پائے، یہ ذکر اور یاد آوری کہیں پر فراموش نہ ہو جائے، ہمیشہ لوگوں کے آنسو بہتے رہیں، لیکن ایک ہیرو کے لئے، پس سب سے پہلے آپ کے لیے ضروری ہے کہ اس بات پر روئیں، وگرنہ ایک ایسا شخص جس کا خون ضائع ہو چکا ہو اور جس کا کوئی وارث نہ ہو اس پر کیا رونا ،اس کیلئے ایک ملت کا رونا کوئی معنی نہیں رکھتا، ایک ہیرو کی جدائی پر روئیں تاکہ آپ نے بھی اس جیسے احساسات بیدار ہوں۔
مقدس آنسو:
عیسائیوں کے عقائد کا ایک اصول حضرت عیسی علیہ السلام کا سولی پر چڑھنا ہے تاکہ یہ توڑ بن جائے، حضرت عیسی علیہ السلام کا لقب انقادی مطلب توڑ دینا ہے عیسائیت کی رو سے عیسائی عقیدے کا ایک جزو ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اس لیے سولی پر چڑھ گئے تاکہ وہ قوم کے گناہوں کا کفارہ بن سکیں یعنی عیسائی اپنے گناہوں کا کفارہ حضرت عیسی علیہ السلام کے کھاتے میں ڈالتے ہیں، ہم نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ یہ بات تو عیسائی دنیا کی ہے، اسلامی روح کے ساتھ اس کا کوئی تعلق یا مطابقت نہیں، خدا کی قسم یہ حضرت حسین علیہ السلام پر تہمت اور بہتان ہے۔
واللہ اگر کوئی رمضان کے مہینے میں روزہ دار ہو اور امام حسین بن امام علی علیہ السلام سے یہ بات منسوب کرے اور کہے کہ امام حسین علیہ السلام ایسے ہی کام کے لیے تھے اور یہ بات ان سے نقل کرے تو اس کا روزہ باطل ہے۔ یہ امام حسین علیہ السلام پر جھوٹ ہے، امام حسین علیہ السلام نے گناہ سے لڑنے کے لئے قیام کیا تھا ،اس کے برعکس ہم نے یہ کہہ دیا کہ انہوں نے اس لئے قیام کیا کہ گناہگاروں کی حفاظت کریں ،ہم نے کہہ دیا کہ امام حسین علیہ السلام نے ضمانت دے دی ، گویا ایک بیمہ کمپنی کی بنا پر بنیاد رکھ دی، بیمہ کیسا؟ گناہ کا بیمہ، آپ علیہ السلام نے گویا فرمایا کہ میں نے تمہارے گناہوں کا بیمہ کر دیا۔ اس کے بدلے میں کیا لوں گا؟ آنسو! تم میرے لیے آنسو بہاؤ میں اس کے عوض تمہارے گناہوں کی تلافی کر دوں گا۔ چاہے کوئی بھی ہو، ابن زیاد ہو عمرسعد ہو۔ دنیا میں ایک ابن زیاد کم تھا دنیا میں ایک عمر سعد کم تھا۔ کیا دنیا میں سنان بن انس کم تھا، دنیا میں ایک خولی کم تھا، کیا امام حسین علیہ السلام چاہتے تھے کہ دنیا میں خولی زیادہ ہو جائیں، دنیا میں عمر سعد زیادہ ہو جائیں۔ کیا آپ علیہ السلام نے یہ فرمایا تھا اے لوگو! تم سے جتنا برا بنا جا سکے بن جاؤ میں تمہارا ضامن ہوں؟
امام سجاد علیہ السلام کے با مقصد آنسو:
بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ امام زین العابدین علیہ السلام اپنے والد بزرگوار کے بعد جتنا عرصہ زندہ رہے انہوں نے تلوار نہیں اٹھائی بلکہ انہوں نے ایسا کیا کہ یہ واقعات ذرا بھول جائیں۔ ایسا ہرگز نہیں بلکہ آپ ہر موقعہ کی تلاش میں رہتے تھے تاکہ وہ اپنے والد بزرگوار کے قیام کے اثرات زندہ رکھ سکیں۔ آپ علیہ السلام جو گریہ و زاری کرتے تھے وہ کس لئے تھا؟ کیا ان کی حالت ایسی تھی جیسے ایک آدمی کا دل جلتا ہے تو وہ بے مقصد رونے لگتا ہے؟ یا اس حادثے کو زندہ رکھنے کے لیے تاکہ کہیں لوگ امام حسین علیہ السلام کو یاد رکھیں اور یہ بھی یاد رہے کہ کس نے انہیں قتل کیا؟ اس لیے آپ علیہ السلام کبھی بہت زیادہ گریہ و زاری کرتے تھے ایک مرتبہ آپ علیہ السلام کے خادم نے عرض کیا آقا کیا ابھی ایسا وقت نہیں آ چکا کہ آپ علیہ السلام اب رونا ترک کر دیں۔
فرمایا: تم کیا کہہ رہے ہو؟ حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس ایک ہی یوسف تھا، قرآن مجید نے ان کے جذبات کی اس طرح تشریح کی ” ان کی آنکھیں فراق یوسف میں سفید ہوگئیں”
(سورہ یوسف آیت نمبر 84)
میں نے اپنی آنکھوں سے آنسو گرتے دیکھے ہیں۔
با معرفت آنسو:
جو چیزیں عمل کی اہمیت کو کیفیت کے لحاظ سے بلند کر دیتی ہیں۔ ان میں سے ایک معرفت ہے۔ آخر کیوں زیارات کے باب میں یہ کہا جاتا ہے کہ جو بھی امام علیہ السلام کی زیارت کرے اس شرط کے ساتھ کہ انہیں جانتا ہو کہ وہ کون ہیں کیا ہیں؟ اس لیے کہ شناخت بنیاد ہے۔
یہ جو چند اشخاص شبے کا اظہار کرتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کے لیے بہایا گیا ایک قطرہ اتنی اہمیت کیسے حاصل کر سکتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا ممکن ہے کہ ایک شخص امام حسین علیہ السلام کے لئے اتنا روئے کہ اگر اس کی زندگی کے تمام آنسو جمع کیے جائیں تو ایک تالاب کی شکل بن جائے اور اس کی اہمیت بھی نہ ہو، لیکن ایسا ممکن ہے کہ اگر ایک انسان مکھی کے پر کے برابر آنسو بہائے جو اس تالاب سے بھی زیادہ اہمیت ہو۔
Add Comment