سیرت اہل بیت علیھم السلام

دس محرم الحرام کی تحریک عاشورا میں امام حسین علیہ السلام کے انسانیت کے لئے درس

 امام حسین علیہ السلام انسانیت کے معلم ہیں:

امام حسین علیہ السلام نے لوگوں کو غیرت کا درس دیا، تحمل اور برد باری کا درس دیا ، لوگوں کو مشکلات اور سختیوں میں تحمل و برداشت کرنے کا درس دیا، مسلمانوں کے لئے اس میں عظیم درس ہے یہ جو کہتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام بن امام علی علیہ السلام نے آخر ایسا کیا کیا ہے کہ دین اسلام زندہ ہوگیا، اس کا جواب یہی ہے کہ امام حسین بن امام علی علیہ السلام نے تازہ روح پھونک دی۔ خون میں جوش برپا کردیا ، غیرت مند بنا دیا، لوگوں کو عشق اور آئیڈیل دے دیا ، دوسروں سے بے نیازی کی حس بیدار کردی مشکلات میں تحمل اور حوصلہ مندی کا درس دیا ڈر اور خوف ختم کرکے رکھ دیا وہ جتنے ڈرتے تھے انہیں اتنا ہی شجاع اور دلاور بنا دیا۔

عزت آمیز زندگی کا درس:

روز عاشورا امام حسین علیہ السلام اپنی زندگی کے آخری لمحات میں ان کے آخری کلمات میں بھی کرامت ہو بزرگواری اسلامی اخلاق و تربیت محور کے طور پر نظر آتے ہیں۔ ابن زیاد کی طرف سے بھیجے ہوئے قاصد کو یہ جواب دیا: میں ایک پست فطرت انسان کی مانند اپنا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں نہیں دوں گا ایسا نہیں ہو سکتا۔ اس کے باوجود اس حالت میں بھی جنگ جاری رکھی۔
جبکہ سب اصحاب شہید ہو چکے ہیں تمام رشتے دار اور قریبی شہید ہو چکے ہیں، اپنے بڑے فرزند کی شہادت بھی سامنے ہے اپنے بھائی کے قلم شدہ بازو بھی سامنے ہیں اور بند آنکھوں سے یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اب یہ سارے لوگ حرم اہل بیت پر ٹوٹ پڑیں گے اس حالت میں بھی جنگی شعار بلند ہوتے ہیں ایک سیاست حکومت اور آقا کے شعار اس معنی میں نہیں کہ میں ایک صدر مملکت بننا پسند کرتا ہوں بلکہ میں ایسا سربراہ ہوں کہ جس کی سربراہی اسے یہ اجازت نہیں دیتی کہ ایک پست فطرت کے مقابل تسلیم ہو جاؤں۔

ظلم کا مقابلہ کرنے کا درس:

امام حسین علیہ السلام نے بڑی صراحت سے یہ فرمایا کہ اسلام ایسا دین ہے کہ حتیٰ کہ یہ نہیں کہا کہ کسی امام علیہ السلام کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ ظلم و ستم اور فساد اور گناہ کے مقابلے میں لا تعلّق اور غیر جانبدار رہے۔

آئیڈیل بننے کی حس بیدار کر دی:

یہ جو میں تاکید کرتی ہوں کہ حسنی تحریک اور حادثہ کربلا و عاشورا سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جائے اس لیے کہ اس میں عظیم درس ہے یہ قیام ہمیں بتاتا ہے میں مرثیے اور نوحے کی مخالف نہیں، لیکن میں یہ کہتی ہوں کہ ان نوحوں اور مرثیوں کو ایسا ہونا چاہئے کہ یہ ہمارے اندر حسین آئیڈیل کو متحرک اور زندہ رکھے۔

عدالت و آزادی کا درس:

آئیڈیل یا ہیرو کی جدائی پر گریہ و زاری کریں تاکہ آپ میں بھی یہ احساسات بیدار ہو جائیں تا کہ ان آزاد مردوں کی ارواح کے سامنے میں آپ کی روح میں بھی یہ حس بیدار ہو جائے اور آپ میں بھی حق و حقیقت کی نسبت غیرت پیدا ہو جاۓ۔ آپ بھی عدالت کے چاہنے والے بن جائیں، آپ بھی ظلم و ستم کا مقابلہ کر سکیں آپ بھی آزادی طلب بن جائیں۔ آزادی کے احترام کے قابل ہو جائیں، آپ کو بھی پتہ چل جائے کہ عزت نفس کیا ہوتی ہے؟ انسانیت اور شرافت کیا ہے؟ کرامت کیا چیز ہے؟

آزادی روح کا درس:

امام حسین علیہ السلام فرزند پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ وہ جب اپنے ایمان کی تعلیمات کا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اظہار کرتے ہیں تو اس میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلوہ گر ہوتے ہیں۔ وہ چیز جس کا اظہار سب کرتے ہیں لیکن ان کے عمل میں ایسا نظر نہیں آتا وہ حسینی وجود میں دیکھنے کو ملتا ہے آخر کیوں انسانی روح میں اس قدر شکست پذیری نظر آتی ہے؟ سبحان اللہ! انسان کہاں تک جا سکتا ہے کہ اس کا بدن ٹکڑے ٹکڑے ہے جو ان آنکھوں کے سامنے تہ تیغ ہوتے ہیں۔ پیاسے بھی ہیں اپنے خاندان کے بارے میں بھی جانتے ہیں کہ انہیں اسیر کر لیا جاۓ۔جو کچھ پاس تھا لیکن ایک چیز باقی تھی وہ ان کی روح کبھی شکست قبول نہیں کرے گی۔

عاشورا اور دس محرم الحرام کا دن ہے:

عاشورا کا دن ہے، امام حسین علیہ السلام بن امام علی علیہ السلام کی معراج کا دن ہے۔ ایسا دن ہے کہ جس دن ہم حسینی روح، حسینی غیرت، حسینی مقاومت، شجاعت و دلیری اور حسینی روشن بینی سے درس لے سکتے ہیں تاکہ ہم بھی انسانیت سے کچھ لیکر آدم بن سکیں، بیدار ہو سکیں۔

امام حسین علیہ السلام کا ہر سال ظہور ہوتا ہے:

امام حسین علیہ السلام کی تحریک عالم اسلام کے لیے ایک پروگرام ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے تجدید حیات کا دن ہے یہ ظہور کی ایک ایسی قسم ہے کہ جس میں سید الشہداء خطیبوں، ذاکروں کے ذریعے ظہور کرتے ہیں یا صالحین اور انقلابیوں میں ظہور کرتے ہیں۔

اقامۂ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا درس:

یہ سٹیج اور ممبر پر جو کچھ موجود ہے یہ سب واقعہ کربلا اور آئمہ اطہار علیہ السلام کی وصیت کہ سید الشہداء کی عزاداری قائم رکھی جائے کی وجہ سے ہے سید الشہداء کی عزاداری کی برکت کے باعث یہ سب کچھ ہے۔ بعض غافل ، سمجھدار اور متدین افراد یہ کہتے ہیں کہ اب سید الشہداء علیہ السلام کی مجالس تو برپا ہوتی رہتی ہیں لوگ امام حسین علیہ السلام کے نام پر آنے لگے ہیں پھر ہم ایک اور اصول سے فائدہ کیوں نہ اٹھائیں؟ کیوں نہ سی ضمن میں ایک اور اصول کا اجراء کر دیں؟ اور وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے لہذٰا امام حسین علیہ السلام بن امام علی علیہ السلام کے دو سٹیج بن گئے ایک سٹیج سے مرثیہ خوانی کا جس پر احسانات کے ذریعے مظلوم کا ساتھ دینے اور ظالم کے خلاف ہونے کی حس بیدار ہوتی ہے جس سے مظلوم کو فائدہ ہو البتہ اگر اس کی روش درست ہو اس کے بڑے عظیم اثرات ہیں۔
دوسرا اسٹیج امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے اس ملک میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے جو ارشاد وہدایت دی جاتی ہے وہ سب امام حسین علیہ السلام کے مقدس نام کے باعث ہے کتنا اچھا کام ہے اور کیسی اچھی سنت ہے جس پر عمل ہورہا ہے کتنا ہی اچھا کیا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے لیے ضمی طور پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا سٹیج بنا کر اصول دین اور فروع دین کا وظیفہ انجام دیا جانے لگا ہے اور لوگوں کے احساسات سے حقیقی فائدہ اٹھایا اور خوب فائدہ اٹھایا۔ جس قدر لوگ امام حسین علیہ السلام کے نام پر جمع ہوتے ہیں کسی اور کے نام پر اتنے افراد جمع نہیں ہوتے۔ یہ اچھا کیا ہے کہ اس سنت سے فائدہ اٹھایا جانے لگا۔

انسان برائیوں سے نفرت کرتا ہے:

بشر میں یہ کیا چیز ہے؟ بشر میں یہ کیسی حس ہے؟ یہ انسانیت کی اصل اور اس کی نمائندہ چیز ہے کلی طور پر آخر وہ کون سی وجہ ہے کہ نیک لوگوں سے محبت اور برے لوگوں سے نفرت کی جاتی ہے چاہے ان کا تعلق گزشتہ دور سے ہی کیوں نہ ہو؟ جب یزید و شمر کا نام ہمارا سامنے لیا جاتا ہے اور انہوں نے جو جرم کیے اور دوسری طرف شہیدان کربلا کا ذکر ہوتا ہے اور جو فداکاری کے جوہر انہوں نے دیکھائے تو ہمارے اندر پہلے گروہ کے لئے نفرت اور دوسرے گروہ کے لیے عجیب حس ہے جو احترام کے قابل ہے، یہ کیا ہے؟ کیا یہ درجات کا مسئلہ ہے ہم خود کو شہیدان کربلا کے گروہ میں پاتے ہیں اور یزید و شمر سے ہم اس طرح نفرت کرتے ہیں جس طرح ہم اپنے دشمن سے کرتے ہیں اور احترام کرنے کی حس کو شہیدان کربلا سے منسوب کرتے ہیں۔

معرفت امام حسین علیہ السلام کا نتیجہ:

جب آپ امام حسین علیہ السلام کی شناخت کر لیں گے اور امام حسین علیہ السلام کی معرفت حاصل کرلیں گے اس وقت جو تمہارا دل چاہے نیک عمل انجام دیں کیونکہ امام حسین علیہ السلام کی شناخت کے بعد آپ کی جان چکے ہیں کہ نیک عمل کیسے انجام دیں، قبولیت عمل کی شرائط آپ نے پالی ہے اب آپ امام حسین علیہ السلام سے شناس ہوگئے ہیں جب کہ آپ امام علی علیہ السلام سے شناس ہوگئے ہیں جب کہ آپ امام حسین علیہ السلام سے شناس ہو گئے ہیں جو بھی عمل خیر ادا کر سکتے ہیں کریں، میں نے کب کہا ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام کی شناخت کر لو پھر ہر فسق و فجور سب کو انجام دے سکتے ہو ، جس کا تمہارا دل چاہے۔