شکوک و شبہات کے جواب

امام حسین علیہ السلام کی تحریک کا دیگر تحریکوں اور قیام سے مقایسئہ

 اصحاب معاویہ اور اصحاب ابن زیاد میں فرق:

چند ایسے نکات جو اصحاب معاویہ اور اصحاب ابن زیاد کے درمیان فرق ہے کے بارے میں یہاں بیان کرتے ہیں:
الف: صفین میں اصحاب معاویہ اور کربلا میں اصحاب یزید کے درمیان فرق تھا معاویہ ظاہر سازی کے ذریعے ایم قسم کا فریب دے رہا تھا اصحاب معاویہ یہ خیال کر رہے تھے کہ وہ مظلوم خلیفہ کے انتقام کی خاطر ایسا کر رہا ہے اس وقت معاویہ کے مقاصد سے پردہ نہیں اٹھا تھا۔ برخلاف اور دور یزید، اسی دلیل کی بنا پر نفاق معاویہ اس طرح سے امام علی علیہ السلام کے دور میں آشکار نہیں ہوا تھا جتنا امام حسین علیہ السلام کے دور میں ہو چکا تھا لیکن لوگ ان بیس سالوں میں فکری لحاظ سے اس قدر پیچھے ہوتے گئے کہ معاویہ کے دور میں حادثہ کربلا جیسے واقعے کے لیے بنو امیہ کا دفاع کرنے لگے۔ پس بنی امیہ لوگوں کو ایک عرصہ تک پسماندہ رکھنے میں کامیاب رہے۔
ب: معاویہ کے مسئلے میں خون کا بدلہ خون جیسے انتقام نے لوگوں کو متحرک کر دیا اس میں کوئی شک نہیں کہ جہالت اور عربی عصبیت اور خونخواہی اور خونخواری جو کہ عرب کی طبیعت میں ظاہر ہوئی اس حادثہ میں بدرجہ اتم موجود تھی لیکن اسلامی رنگ لیے ہوئے تھی۔
ج: معاویہ نے اپنی خلافت کے دوران خود ایک اہم کام کیا جو بنوامیہ کی حکومت کے زوال کا باعث بن گیا اور وہ اہم کام یزید کو ولی قرار دینا تھا اول تو یزید صالح مرد تھا ثانیا یہ ولایت کا عہدہ اصل میں خلافت کو بطور سلطنت اپنے ہاتھ میں لینے کا پروگرام تھا معاویہ نے تمام کاموں کی طرح خلافت کی روش کو بھی تبدیل کرکے بادشاہت کا رنگ دے دیا عثمان کے دور سے ہی بنو امیہ نے خلافت کو اپنے لئے ملک کا درجہ دے رکھا تھا۔
د: کربلا میں بنو امیہ کے اعوان و انصار

روز عاشور اور دوسری جنگوں کا تجزیہ:

میں نے ایک دن یہ حساب کیا تو پتہ چلا کہ تقریبا اکیس جنایت مظالم ایسی ہیں جنہیں انجام دیا گیا ہے اور یہ خیال نہیں تھا کہ ایسے مظالم دنیا میں انجام پائیں گے کہ اس قدر ظلم ہوں گے البتہ صلیبی جنگیں اور یورپ کی جنگیں عجیب ہیں کی جرآت نہیں ہیں کہ یہ کہوں حادثہ کربلا سے زیادہ مظالم کسی اور حادثے میں واقع ہوئے ہوں کیونکہ میری توجہ ایک ایسی صلیبی جنگ کی طرف ہے کہ ایسے مظالم ہیں جو عیسائیوں نے انجام دئیے ہیں۔ اور ایک اور ظلم جو یورپیوں نے اسلامی ملک اندلس میں انجام دیا ہے کہ یہ بھی عجیب ہے اندلس کی تاریخ جو آیتی مرحوم نے جسے یونیورسٹی والوں نے چھاپا کیا ہے پڑھیں یہ کتاب بہت زیادہ تحقیقی اور پڑھنے کے قابل ہے۔
اس کتاب میں تحریر ہے: یورپین نے ایک لاکھ مرد و زن اور بچوں کو اجازت دے دی کہ جہاں جانا چاہتے ہیں چلے جائیں جب یہ نکل کھڑے ہوئے تو پشیمان ہو گئے، شروع سے ہی دھوکہ کھا بیٹھے، بہرحال یہ ایک لاکھ افراد کا قتل ہو گئے ان کے سر کاٹ لیے گئے، مشرکی لوگ ہرگز مغربی لوگوں کے مظالم کو نہیں پہنچ سکتے آپ اگر مشرقی سرزمین پر گھوم پھر کر دیکھیں تو دو مظالم حتیٰ کہ آپ کو بنو امیہ کے پاس بھی نہیں ملیں گے ایک زندہ لوگوں کو آگ لگا دینا اور دوسرا عورتوں کا قتل عام، لیکن مغربی زمین پر یہ دونوں مظالم فراوان ملیں گے، عورت کا قتل کرنا مغربی سر زمین کی تاریخ میں ایک بڑا موضوع ہے کبھی بھی آپ یقین نہیں کریں گے کہ ان کے اندر انسانی روح موجود ہے، جو ویتنام میں ہوا وہی صلیبی جنگ اور ان جنگ اندلس کا تسلسل ہے یہ کہ چند ہزار لوگوں کو زندہ آتش میں جھونک دینا اگرچہ یہ ظالم ہی کیوں نہ ہوں، مشرق کے لوگ ایسا نہیں کر سکتے مشرقی سرزمین پر ایسا واقعہ نہیں ہو سکتا، ایسے واقعات مغربی لوگ ہی انجام دیتے چلے آرہے ہیں اور یہ بیسویں صدی کے واقعات ہیں۔
صحرائے سینا میں کئی ہزار افراد کو بھوکا و پیاسا رکھیں تاکہ مر جائیں، اس لیے کہ اگر انہیں اسیر کریں تو انہیں خوراک دینا پڑے گی یہ مغرب کی سرزمین کا تحفہ ہے ، مشرقی یہ مظالم انجام نہیں دے سکتے فلسطین کے یہودی ہوتے تو یہ مظالم نہ ہوتے، یہ سب مغربی یہودیوں کے ہیں بہرحال میرے اندر یہ جرآت نہیں کہ یہ کہہ سکوں کہ کربلا کے مظالم ہوئے ہوں لیکن یہ کہہ سکتی ہوں کہ ایسا مشرقی سر زمین پر واقع ہونا مشکل ہے۔

انصار امام حسین علیہ السلام کی اہمیت:

سپین کی جنگ میں طارق بن زیاد نے جب اسپین فتح کر لیا اور اپنی کشتیوں پر دوسرے کنارے تک پہنچ گئے تو حکم دیا کہ چوبیس گھنٹوں کے لیے غذا رکھ لی جائے اور باقی جو کچھ بھی ہے اسے کشتیوں سمیت آگ لگا دی جائے اس کے بعد فوجیوں اور افسروں کو جمع کیا اور ایک عظیم دریا کی طرف اشارہ کیا اور کہا ایھا الناس! دشمن تمہارے سامنے اور دریا تمہارے پیچھے ہے، اگر فرار کرنا چاہو گے تو سوائے غرق ہونے کا کوئی اور راستہ نہیں ملے گا کوئی کشتی نہیں ہے جو تمہیں نجات دے سکے اس طرح غذا بھی اگر سستی دیکھاؤ گے تو فقط 24 گھنٹے باقی ہیں اس کے بعد تم مر جاؤ گے اس لیے تمھاری نجات فقط دشمن کو تباہ و برباد کرنے میں ہے تمہاری غذا دشمن کے قبضے میں ہے اس کے علاوہ کوئی راہ نہیں یعنی انہیں مجبور کر دیا اب یہ لوگ خون کے آخری قطرے تک جنگ نہ کرے تو پھر کیا کریں؟
لیکن امام حسین علیہ السلام نے اطارق بن زیاد کے عمل کے خلاف عمل کیا یہ نہیں کہا کہ دشمن یہاں ہے اس طرف جاؤ گے تو تمہیں نابود کر دے گا، اس طرف جاؤ گے تو تباہ ہو جاؤ گے، اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بہرحال تم سب قتل ہو جاؤ گے اب جب کہ تم قتل کر دیے جاؤ گے تو پھر آجاؤ میرے ساتھ قتل ہونے کے لیے اس طرح کی شہادت با اہمیت نہیں ہوتی ایک سیاستدان اس طرح کام کرتا ہے، فرمایا: نہ تو دریا تمہارے پشت پر ہے اور نہ ہی دشمن تمہاری پشت پر ،نہ دوست تمہیں مجبور کر رہا ہے اور نہ ہی دشمن جو بھی انتخاب کرنا چاہو کر لو یہ ہے آزادی کی انتہا!

حادثہ کربلا کے دونوں رخ:

انسان کی زندگی ، تاریکی اور روشنی بندی، زیبائی شر و خیر کا مجموعہ ہے فرشتوں نے فرزند آدم کا ابھی تک تاریخ پہلو ہی دیکھا تھا جس کی طرف خدا نے اشارہ کیا کچھ روشن پہلو تھے جو اس تاریخ پہلو پر ترجیح رکھتے ہیں۔

حادثہ کربلا کے دو رخ ہیں دو ورق ہیں ایک سیاہ اور دوسرا سفید، سیاہ ورق مظالم کی داستان ہے بہت زیادہ تعریف اور وحشتناک ،ہم بے رحمی اور قساوت قلبی کے 20 مظاہر جو اس حادثہ کربلا میں انجام دیئے گئے بیان کریں گے اس لحاظ سے یہ حصہ درندگی اور حیوانات کے لحاظ سے تاریک ہے۔

سفید کے لحاظ سے ایک ملکوتی داستان ہے ایک انسانی حماسہ ہے اس میں آدمیت و عظمت و بزرگی اور فدا کاری کے مظاہر ہیں۔

تاریخ صفحہ کے لحاظ سے یہ ایک فاجعہ ہے اور دوسرے لحاظ سے ایک مقدس قیام ہے پہلے لحاظ سے شمر ابن زیاد، حرملہ اور عمر سعد ہیرو ہیں دوسری طرف امام حسین علیہ السلام اس داستان کے ہیرو ہیں اسی طرح ابو الفضل علیہ السلام ،علی اکبر علیہ السلام، حبیب ابن مظاہر، زینب و ام کلثوم و ام وھب اور اسی طرح پہلے لحاظ سے اس داستان کی اہمیت نہیں کہ چودہ سو سال بعد بھی اس کی عظمت کی واقعات کی تجدید کی جائے۔ پیسے ،آنسو اور وقت ان تاثرات اور احساسات پر خرچ ہوں، ہرگز نہیں اس طرح سے تو اس ظلم و بربریت سے پر ہے استفادہ کرنا نہیں  چاہیےہو سکتا ہے اور منفی پہلو میں بھی بشر کے لیے تربیت کا کوئی پہلو ہو ، لقمان سے پوچھا گیا ادب کہاں سے سیکھا اس نے کہا بے ادبوں سے سے، اس تربیت کے پہلو ایسے نہیں ہیں۔

قرون قدیم، قرون وسطی، قرون جدید اور قرون معاصر میں بھی ابن زیاد کا تھا اور ہے،بیس سال پہلے 1940ء میلادی کا دن تھا کہ ایک شہر پر بم گرا اور 60 ہزار انسان بچے اور بڑے اس میں تلف ہو گئے ، اور مشرق و مغرب میں بہت زیادہ مظالم واقع ہوئے ہیں مثلاً نادر شاہ ایک ظالم حکمران کے طور پر مشہور ہے اسی طرح ابو مسلم، با بک خرم دین صلیبی جنگیں، اندلس کی جنگیں یہ سب ظلم و بربریت کے مظاہر ہیں۔

دوسری طرف یہ داستان جس کا ورق سفید ہے یہ سب اہمیت اسے حاصل ہے اس لحاظ سے یہ بے نظیر اور کم نظیر ہے اس لیے کہ اس دنیا میں امام حسین علیہ السلام سے افضل موجود تھے لیکن امام حسین علیہ السلام جیسا سانحہ کسی کے ساتھ پیش نہیں آیا امام حسین علیہ السلام نے رسمی طور پر اپنے اصحاب اور اہل بیت کو بہترین اصحاب اور اہل بیت قرار دیا۔

اس داستان کے رہبر امام حسین علیہ السلام و بی بی زینب سلام اللہ علیہا ہیں نہ اس لحاظ سے کہ اس داستان کے ہیرو عمر سعد اور شمر ہیں۔

مقدس حسینی قیام:

امام حسین علیہ السلام نے قیام کیوں کیا، اس کی مانند کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے مکہ میں قیام کیوں کیا؟ اور قریش سے کیوں نہ مل گئے؟ یا علی مرتضیٰ علیہ السلام نے کیوں اتنے رنج اٹھائے اور حمایت کی بدر و حنین و احد و احزاب وغیرہ کے واقعات پیغمبر خدا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے برداشت کیے؟
یا ابراہیم علیہ السلام کیوں تنہا غرور کے مقابل جا کھڑے ہوئے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب ان کے ساتھ فقط ان کے بھائی ہارون تھے کیوں فرعون کے دربار میں پہنچ گئے؟
ایسا کیوں؟ اس کا معنی یہ ہے کہ اگر امام حسین علیہ السلام کا قیام محاذ آرائی تھی تو یزید کے مقابلے میں امام حسین علیہ السلام کی فوج ہونی چاہئے تھی اگر اجتماعی قیام کرتے تو لوگوں کے دو بڑے دستے ہونے چاہیے تھے دو بڑے لشکر، ایک لشکر کے سالار امام حسین علیہ السلام ہوتے، اس صورت میں امام حسین علیہ السلام کا قیام مقدس نہ ہوتا۔ یہ کیوں ہوا؟ کا لفظ ہر مقدس اور تاریخی قیام میں موجود ہے دو علامتوں سے انسانی قیام کو تشخیص دیا جا سکتا ہے۔
ایک تو یہ کہ قیام کا ہدف کیا ہے؟ یعنی یہ قیام انسانیت کے اعلیٰ مقاصد کے لیے ہے توحید کے لئے ہے ،عدل و آزادی کے لیے ہے، ظلم و استبداد کے خاتمے کے لیے ہے، نہ کہ کسب جاہ و مقام کے لئے ثروت اور مال اندوزی کے لئے لیے حتیٰ کہ وطنی، قبائلی، نسلی تعصب سے بھی یہ دور ہو، ایسے قیام اس برق کی مانند ہوتے ہیں جو سخت ظلمت کی تاریکی میں جگمگائے ،ایسا شعلہ  ہے جو ظلم و استبداد اور استعمار اور زور گوئی کے مقابلے میں روشن ہوتا ہے ایسا ستارا ہے جو شب کی تاریکی میں انسان کی سعادت کے لیے طلوع کرتا ہے۔

قیام کا تقابلی جائزہ:

سید الشہداء کا لقب اس سے قبل رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ شہید کے پاس تھا بعد میں امام حسین علیہ السلام کے ساتھ مختص ہوگیا امام حسین علیہ السلام کی شہادت نے یہ سب کچھ بھلا دیا۔ امام حسین علیہ السلام کی کیفیت ایسی تھی کہ تمام گزشتہ شہداء پر وہ سبقت لے گئے۔ خود امام حسین علیہ السلام نے فرمایا تھا:
انی لا اعلم اصحایا او فی ولا خیرا من اصحابی ولا اھل بیت اوصل ولا افضل من اھل بیتی
امام حسین علیہ السلام کے اصحاب دوست اور دشمن دونوں کی طرف سے آزاد تھے۔آپ علیہ السلام نے خود فرمایا کہ انہیں میرے علاوہ اور کسی سے غرض نہیں خود آپ علیہ السلام نے شخصی طور پر سب سے یہی فرمایا کہ شب کی تاریکی سے فائدہ اٹھائیں ، سر بھی جھکا لیا تاکہ کوئی حیا کی وجہ سے نہ جا سکتا ہو تو وہ بھی چلا جائے۔ اصحاب امام حسین علیہ السلام طارق بن زیاد کے ساتھیوں کی طرح کسی بھی مشکل میں گرفتار نہیں تھے کہ اس نے کشتیوں اور خوراک کو جلا کر راکھ کر دیا۔ آپ علیہ السلام نے کسی دوست سے التماس یا خواہش کا اظہار بھی نہیں کیا یہاں تک کہ امام علیہ السلام کی نگاہ ان میں تاثیر نہ کر سکے اپنا سر جھکا لیا۔