امام حسین علیہ السلام مظلومیت کی بلندی پر:
ہمارا سلام ہو آپ علیہ السلام پر اے ابو الحسن! اے مومنوں کے سردار مولا آپ نے مظلومانہ جام شہادت نوش فرمایا اور جب تک زندہ رہے تو بھی دنیا کے سب سے بڑے مظلوم کے طور پر زندہ رہے پھر آپ علیہ السلام کی قبر پر برسوں تک اداسی اور مظلومیت چھائی رہی۔ آقا میں نہیں جانتی کہ آپ علیہ السلام کی زیادہ مظلوم ہیں کیا آپ علیہ السلام کے بیٹے امام حسین علیہ السلام زیادہ مظلوم ہیں؟ جس طرح حضرت علی علیہ السلام کی لاش مبارک دشمنوں کے شر سے محفوظ نہ تھی۔ اس طرح آپ علیہ السلام کے عزیز بیٹے امام حسین علیہ السلام کی لاش مبارک بھی غیر محفوظ تھی شاید اسی وجہ سے تو فرمایا کہ کوئی دن میرے فرزند حسین علیہ السلام کی مظلومیت والے دن سے بڑا نہیں ہے امام حسن علیہ السلام نے حضرت علی علیہ السلام کی لاش کو پوشیدہ کیوں رکھا؟ اس لیے کہ کوئی ظالم آپ علیہ السلام کے جسم اطہر کی توہین نہ کرے لیکن کربلا میں ایسا نہ ہو سکا سب تو مارے جا چکے تھے ایک بیمار ہی باقی بچا تھا امام زین العابدین علیہ السلام اس قدر بیمار، بےکس، مجبور اور غریب الوطن تھے کہ شہادت کے بعد اپنے مظلوم بابا کی میت کو دفن نہ کر سکے بالآخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ آپ علیہ السلام کے جسم اطہر سے بوسیدہ لباس بھی اتار لیا گیا۔
امام حسین علیہ السلام کی روش کا دیگر ائمہ سے موازنہ:
یہاں پر ایک سوال اٹھتا ہے کہ تمام ائمہ اطہار علیہ السلام شہید کیوں ہوئے ہیں؟ حالانکہ تاریخ ہمیں بتلاتی ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے سوا کوئی بھی امام تلوار لے کر میدان جہاد میں نہیں آیا امام سجاد علیہ السلام خاموشی کے باوجود شہید کیوں ہوئے؟ اسی طرح امام محمد باقر علیہ السلام، امام جعفر صادق علیہ السلام امام موسی کاظم علیہ السلام اور باقی ائمہ شہید کیوں ہوئے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے یہ ہمارے بہت بڑی غلطی ہوگی کہ اگر یہ سمجھیں کہ امام حسین علیہ السلام اور دیگر آئمہ طاہرین کے انداز جہاد میں فرق ہے؟ اسی طرح کچھ نا سمجھ لوگ یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام ظالم حکمرانوں کے ساتھ لڑنے کو ترجیح دیتے تھے اور باقی ائمہ خاموشی کے ساتھ زندگی گزارنا پسند کرتے تھے درحقیقت اعتراض کرنے والے یہ کہہ کر بہت غلطی کرتے ہیں۔ ہمارے مسلمان بھائیوں کو حقیقت کو جانچنا اور پہچاننا چاہیے۔
دستور الہی:
کتاب کافی میں معتبر سند کے ساتھ یہ صحیح حدیث جو ضریس کنانی سے کہتا ہے حمدان بن اعین شیبانی نے امام باقر علیہ السلام سے عرض کیا، قربان جاؤں ملاحظہ کیجئے جو امیر المومنین علیہ السلام اور حسنین علیہ السلام کے ساتھ ہوا، تحریک اور جہاد فی سبیل اللہ اور جو کچھ ہوا بلآخر قتل ہوگئے جابر حکمرانوں نے ایسا کر دکھایا اور مغلوب ہو گئے۔
حضرت علیہ السلام نے فرمایا جو کچھ بھی ہوا خدا نے اسے مقدر کیا ہوا تھا اور اسے خدا نے جاری کیا اور تائید کی اور یہ حتمی تھا حضرت علی علیہ السلام و حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام کو جو دستور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہنچا تھا ہر امام نے جو سکوت اختیار کیا اسی دستور کی بنیاد پر تھا۔
دو ائمہ کی زمانی شرائط کا تجزیہ:
امام جعفر صادق علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے زمانے میں زمین تا آسمان کا فرق ہے امام حسین علیہ السلام کا زمانہ پریشانیوں کا دور تھا اسی لئے آپ علیہ السلام کی مدت میں ظاہراً پانچ یا چھ جملے ہی نقل ہوئے اس کے برعکس امام جعفر صادق علیہ السلام کے سیاسی اختلافات نے ثقافتی اور تعلیمی فرصت کی راہ ہموار کردی کہ آپ علیہ السلام کے چار ہزار شاگرد کے نام ثبت ہیں لہٰذا اگر ہم فرض کریں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے حالات ایسے ہی تھے جیسے امام حسین علیہ السلام کے دور کے تھے جب کہ ایسا نہیں تھا ایک اور واضح فرق جو امام حسین علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام کے حالات کے درمیان موجود ہے وہ یہ کہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے آثار بہت زیادہ ظاہر ہوئے، اگر شہید نہ ہوتے تو کیا ہوتا؟ ایک معطل وجود کی مانند جسے گھر میں نظر بند کر دیا گیا ہو ،اگر فرض کریں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام شہید ہوجاتے اور وہی نتائج جو امام حسین علیہ السلام کی شہادت سے برآمد ہوئے لیکن شہید نہیں ہوئے بلکہ ایک ایسی علمی تحریک کی اسلامی دنیا میں رہبری کی جو تمام اسلامی دنیا میں فقط شیعہ کے لیے ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کے لئے بھی موثر رہی۔
ائمہ کا قیام اور سکوت کی وجہ:
یہاں ہمیں یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی شخصیات اور خصوصیات کیا تھیں اور انہوں نے اپنی فعالیت اسلامی نقطہ نظر سے کس طرح جاری رکھی، اگر امام حسین علیہ السلام بھی اس دور میں ہوتے تو وہ بھی یہی کرتے، اس دور اور امام حسین علیہ السلام کے دور میں کیا فرق ہے؟ البتہ باعث یہ نہیں کہ حکومت سازی کا موقعہ تھا آپ علیہ السلام نے فائدہ کیوں نہ اٹھایا؟ بات یہ ہے کہ امام علیہ السلام نے اپنے آپ کو قتل کیوں نہ ہونے دیا؟
اسلامی دنیا کے حالات دو ائمہ کی زندگی میں:
امام حسن علیہ السلام کی شہادت 61 ہجری میں ہوئی اور امام جعفر صادق علیہ السلام کی وفات 148 ہجری میں ہوئی ان دونوں ائمہ کی وفات میں 87 سال کا وقفہ ہے اس بناء پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان دو آئمہ کے زمانے میں 87 سال کا فرق ہے اس دوران اسلامی دنیا کی حالت بالکل بدل چکی تھی، امام حسین علیہ السلام کے دور میں اسلامی دنیا کے لیے فقط ایک ہی مسئلہ تھا وہ تھا حکومت اور خلافت کا مسئلہ، تمام عوام کو حکومت و خلافت ہی تشکیل دیتی تھی خلافت کے ذریعے ہی سب کچھ طے پاتا تھا یعنی جو اسلامی معاشرہ وجود میں آیا تھا اسی حالت پر ہی تھا باقی تھا، بحث یہ تھی کہ خلافت کا حقدار کون ہے؟ اس لئے کہ خلافت کا مکمل اثرونفوذ حکومت کے تمام شعبوں اور معاملات میں تھا، معاویہ کا سیٹ اپ ایک ڈکٹیٹر کی صورت میں تھا یعنی اس نے اپنے دور کے مطابق شرائط و قوانین کے ذریعے ایسا ماحول بنا دیا کہ اس میں سانس لینا بھی دشوار تھا، اگر لوگ ایک دوسرے سے کچھ نقل کرنا چاہتے تو یہ حکومت کے برخلاف قدم قرار دیا جاتا ، ایسا کرنا ناممکنات میں سے تھا، تاریخ بتلاتی ہے کہ اگر کوئی ایک حدیث کسی کو بتانا چاہتا تھا اور وہ حدیث حضرت علی علیہ السلام کی فضیلت پر ہوتی اس وقت تک اسے نہیں بتاتا تھا جب تک اسے سو فیصد یقین نہ ہو جائے کہ یہ راز فاش نہیں کرے گا، کہیں چھپ کر جاتے صندوق کھولتے اور اسے پڑھتے تھے، عجیب صورتحال بن کر رہ گئی تھی ہر جگہ نماز جمعہ میں میں امیر المومنین پر لعن ہوتی تھی اور یہ بھی امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے سامنے امیرالمومنین کو مسجد پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم برسر منبر لعن کرتے تھے۔ لہذا ہم یہ دیکھتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کی تاریخ یعنی حضرت علی علیہ السلام کی شہادت سے امام حسین علیہ السلام کی شہادت تک مجہول ہے، ایک مجہول تاریخ ہے، کوئی معمولی سا ذکر بھی مام حسین علیہ السلام سلام کے بارے میں نہیں ملتا، کوئی خبر یا کوئی حدیث ایک جملہ ایک مکالمہ ایک خطبہ یا ایک ملاقات بھی نقل ہوئی ہو، ایسی صورتحال بنا کر رکھ دی گئی کہ کوئی بھی ان سے ملاقات نہ کر سکے امام حسین علیہ السلام اسی طرح پچاس سال اور زندہ رہتے تو ایسے ہی حالات رہتے یعنی تین جملے بھی آپ علیہ السلام سے نکل نہ ہوتے کیونکہ ہر طرح کی فعالیت آپ علیہ السلام سے سلب کر لی گئی تھی۔
اگر امام جعفر صادق علیہ السلام نہ ہوتے۔۔۔۔؟؟
یعنی وہ کیسے حالات یا ماحول تھا جو امام جعفر صادق علیہ السلام کو میسر آیا لیکن امام حسین علیہ السلام کو نہیں؟
سید الشہداء پوری زندگی گھر میں گزار دیتے۔ رہن سہن کا بندوبست کرتے اور اللہ کی عبادت کرتے ہیں حقیقت میں زندانی رہتے جا قتل ہوجاتے ،لیکن امام جعفر صادق علیہ السلام کے لئے ایسے حالات نہیں تھے کہ یا تو قتل ہو جائیں یا پھر خاموش بیٹھ جائیں بلکہ یا قتل ہو جائیں یا پھر موجودہ شرائط ہوئے فعالیت دکھائی کام کریں۔ ہم اس مطلب کو روشن کریں گے کہ بعد میں آنے والے ائمہ نے امام حسین علیہ السلام کے قیام کو کیسے اہمیت دی اور روشن کیا۔ ہم اسے درک نہیں کر سکے اگر امام جعفر صادق علیہ السلام نہ ہوتے امام حسین علیہ السلام نہ ہوتے اگر امام حسین علیہ السلام نہ ہوتے تو امام جعفر صادق علیہ السلام نہ ہوتے یعنی اگر امام جعفر صادق علیہ السلام نہ ھوتے ،امام حسین علیہ السلام کی تحریک اتنی روشن اور ثابت نہ رہتی، اس کے باوجود امام جعفر صادق علیہ السلام نے حکومت اور خلافت پر اعتراض نہ کیا لیکن سب جانتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے خلفاء کی تاکید بھی نہیں کی، مخفیانہ طور پر مبارزہ جاری رکھا، سرد جنگ جاری رہی، خلفاء کے عجیب مظالم پوری دنیا میں امام جعفر صادق علیہ السلام کے وسیلے سے عیاں ہوئے اسی لئے منصور آپ علیہ السلام کے بارے میں ایک عجیب تعبیر بیان کرتا ہے کہتا ہے: جعفر بن محمد میرے گلے میں ایک ہڈی کی مانند ہے، نہ میں باہر نکال سکتا ہوں اور نہ ہی نگل سکتا ہوں، نہ ہی الزام لگا کر انہیں سزا دے سکتا ہوں اور نہ ہی میں یہ برداشت کر سکتا ہوں، میں حقیقت میں اس سے آگاہ ہوں کہ جس مکتب کے لیے یہ کام کر رہے ہیں ہمارے خلاف ہے کیونکہ اس مکتب سے جو استفادہ کریں گے سب ہمارے خلاف ہوں گے۔ لیکن میرے ہاتھ میں کوئی بھی ایسا ثبوت نہیں ہے کہ اس کے خلاف کاروائی کر سکوں، یہ منصور کی تعبیر ہے کہ ہڈی میرے گلے میں ہے نہ باہر نکال سکتا ہوں اور نہ ہی نکل سکتا ہوں۔
امر بالمعروف کی شدید ترین نوعیت:
آئمہ اطہار امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے تھے، اس میں سب سے زیادہ شدت قیام امام حسین علیہ السلام میں موجود ہے ثانیا علم کا نشر کرنا ہے جس کا نمونہ امام جعفر صادق علیہ السلام کا مکتب ہے۔
امام حسین علیہ السلام کا زمانہ:
جو روح، عقل اور مستقیم فکر کے مالک ہیں اور موضوع شناس بھی ہیں اور زمانے کے تقاضے بھی درک کر سکتے ہیں کہ اسلامی مصلحت کا تقاضہ کیا ہے کہ ایک ایسا وقت ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی تحریک کا قیام تلوار کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور ایک ایسا وقت ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی تحریک تعلیم و ارشاد اور عمومی تعلیمات اور فکری تبدیلی کے لئے آمادہ ہے۔
سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت کی اہمیت:
امام علیہ السلام سے سوال کیا جاتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنا کیسا ہے؟
فرمایا: مستحب ہے ایک اور امام سے یا اسی امام سے کسی اور وقت یہی سوال کیا گیا فرمایا: واجب ہے یا اس طرح سے کہا کہ اس کا مفہوم یہ تھا کہ واجب ہے ضروری ہے کہ ایسا کریں۔ اسے ترک نہ کریں، ممکن ہے کہ ایک وقت ایسا سوال پھر کسی نے کیا ہو تو امام علیہ السلام نے ہو سکتا ہے یہ کہا ہو اب ضرورت نہیں تمہاری مرضی ہے جاؤ یا نہ جاؤ۔
ایک عام سادہ طبیعت کا انسان کہتا ہے کہ جواب میں اختلاف موجود ہے کہ ایک جگہ تو جہاں تک کہا کہ واجب ہے، ایک جگہ یہ کہا کہ مستحب مؤکد ہے اور ایک جگہ مستحب غیر مؤکد طور پر کہا ہے۔ لیکن ایسا نہیں یہ تعارض نہیں ہے، یہ سب شرائط کا اختلاف ہے ،بعض اوقات معمولی شرائط تھیں۔ خود زیارت قبر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امام علیہ السلام کے تمام اولیاء کی زیارت اس لیے ہے کہ تجوید ہو جائے یہ ایک تربیتی عامل ہے اور فی حد ذاتہ مستحب ہے لیکن یہی مستحب ایک موقع پر حرام بھی ہو جاتا ہے ایک مرتبہ واجب ہوجاتا ہے مثلاً متوکل کے زمانے میں حالات کشیدہ تھے اور بہت زیادہ سختی تھی سازش یہ تھی کہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت گاہ کا خاتمہ کیا جاۓ، یہاں ائمہ تشخیص دیتے ہیں کہ اس روش کا مقابلہ کیا جائے، ایک جدید مسئلہ پیش آتا ہے کہ خلیفہ وقت کے طرز عمل کے خلاف کام کرنا ہے یہاں دستور دیتے ہیں کہ واجب ہے اور واقعا واجب تھا۔
Add Comment