کیا امام حسین علیہ السلام کو صلح پر اعتراض تھا؟
سوال: کیا امام حسین علیہ السلام نے صلح نامے پر دستخط کیے تھے یا نہیں؟ کیا آپ علیہ السلام کو صلح پر اعتراض تھا یا نہیں؟
جواب: میری تحقیق کے مطابق امام حسین علیہ السلام نے اس صلح نامے پر دستخط نہیں کیے اس لیے کہ اس کی ضرورت ہی نہیں تھی کیونکہ اس وقت امام حسین علیہ السلام امام حسن علیہ السلام کے تابع تھے وہ امام حسن علیہ السلام کے ماموم تھے۔ امام حسن علیہ السلام جو کام بھی کرتے آپ علیہ السلام کو قبول تھا۔ آپ علیہ السلام اس کے پابند تھے حتیٰ کہ ایک گروہ جو امام حسن علیہ السلام کی صلح کا مخالف تھا آپ علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور کہا کہ ہمیں یہ صلح قبول نہیں، کیا ہم آئیں اور آپ علیہ السلام کی بیعت کر لیں؟
فرمایا: نہیں۔ جو میرے بھائی امام حسن علیہ السلام نے کیا ہے میں اسی کا تابع ہوں۔
از نظر تاریخ یہ بات سو فیصد مسلم ہے کہ امام حسین علیہ السلام امام حسن علیہ السّلام کے تابع تھے۔ یعنی ذرہ سا بھی اختلاف اس صلح میں نظر نہیں آیا کہیں ایسا موقع نہیں ملتا کہ امام حسین علیہ السلام نے اعتراض کیا ہو کہ میں اس صلح کا مخالف ہوں لیکن جب دیکھ لیا امام حسن علیہ السلام اس صلح کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں رب تسلیم ہوۓ۔ نہیں، کسی طرح کا اعتراف بھی امام حسین علیہ السلام کی طرف سے ظاہر نہیں ہوا۔
امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے زمانے کی شرائط:
امام حسن علیہ السلام کا مسئلہ قدیم سے مورد اعتراض رہا ہے بعد میں بھی اور بالخصوص ہمارے دور میں اس مسئلہ پر زیادہ اعتراض کیا ہے کہ امام حسن علیہ السلام نے کس طرح، کس بنیاد پر معاویہ سے صلح کی؟
خاص طور پر ایک تجزیہ کیا جاتا ہے کہ جب امام حسن علیہ السلام کی معاویہ کے ساتھ صلح اور امام حسین علیہ السلام کا بیعت نہ کرنا، یزید و ابن زیاد کے مقابل تسلیم نہ ہونا، میری نظر میں ان لوگوں کے لئے اس میں اعتراض کا پہلو ہے جو اس مطلب کو گہری نظر سے نہیں دیکھ سکے ان کے لیے یہ دو روشیں ہیں، اس لئے کچھ کہتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے دو مختلف مقاصد و اہداف تھے امام حسن علیہ السلام طبیعت کے لحاظ سے صلح جو تھے جبکہ امام حسین علیہ السلام میدان جنگ کے شہسوار تھے ہماری بحث یہ ہے کہ امام حسن علیہ السلام نے معاویہ کے ساتھ صلح کرلی اور دستخط کردیئے جبکہ امام حسین علیہ السلام صلح و تسلیم کے لیے راضی نہ ہوئے یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دو مختلف شخصیات تھیں اگر یہ فرض کر لیں کہ امام حسن علیہ السلام کی جگہ اگر امام حسین علیہ السلام ہوتے تو پھر حالات کچھ اور ہی ہوتے امام حسین علیہ السلام خون کے آخری قطرے تک جنگ کرتے، اسی طرح اگر کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی جگہ امام حسن علیہ السلام ہوتے تو جنگ ہی نہ ہوتی تو کیا نتیجہ نکلتا؟ یا یہاں شرائط مختلف ہیں امام حسن علیہ السلام کے زمانے میں شرائط کا تقاضہ یہی تھا اور امام حسین علیہ السلام کے دور کے شرائط کا اپنا تقاضہ تھا۔ اگر ہم مختلف شرائط پر بحث کریں تو ایسی ہی بحث کریں کہ جو عام طور پر لوگوں کے درمیان موجود ہے کہ امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے دور میں امامت کی شرائط مختلف تھیں حقیقت میں امام حسن علیہ السلام کے دور کی مصلحت اندیشی کا تقاضا یہی تھا اور اسی طرح امام حسین علیہ السلام کا بھی، ہم اسے قبول کرتے ہیں اور اس پر بحث بھی کریں گے ،البتہ بحث سے قبل اسلام کے بنیادی دستور جہالت پر بات کریں گے، کیونکہ دونوں مسائل کی بنیاد جہاد ہے۔ امام حسن علیہ السلام نے جنگ ترک کی اور صلح کرلی۔
امام حسین علیہ السلام نے جنگ ترک نہیں کی صلح بھی نہیں کی، پس ہم جہاد کے بارے میں اسلام کی کلیات بیان کریں گے، جو بھی امام حسن علیہ السلام کے سلسلہ پر بحث کرتے ہیں ہم نے نہیں دیکھا کہ اس حوالے سے بھی بحث کرتے ہوں اس کے بعد ہم اس مسئلے پر بات کریں گے کہ امام حسن علیہ السلام کی صلح کس بنا پر تھی امام حسین علیہ السلام کی جنگ کی وجوہات کیا تھیں؟
صلح کیوں؟ جنگ کیوں؟
حکمیت کا مسئلہ بھی اسی طرح ہے کہ کیوں علی علیہ السلام نے جبکہ خوراج آپ علیہ السلام پر مسلسل دباؤ ڈال رہے تھے حکمیت کو قبول کیا اور جنگ جاری نہ رکھی؟ آپ علیہ السلام قتل ہو جاتے حد اکثر یہی ہوتا ہے جیسے آپ علیہ السلام کے فرزند امام حسین علیہ السلام قتل کر دیے گئے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شروع میں جنگ کیوں نہ کی؟ حداکثر یہی ہوتا ہے کہ آپ کا قتل ہو جاتے جس طرح امام حسین علیہ السلام قتل کر دیے گئے صلح حدیبیہ کیوں کی؟ حد اکثر یہی ہوتا ہے کہ آپ قتل ہو جاتے جس طرح امام حسین کو قتل کر دیے گئے یا ہم یہ کہیں کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے بعد از پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شروع میں جنگ کیوں نہ کی؟ ہاں اکثر یہی ہوتا ہے کہ آپ قتل ہو جاتے جس طرح امام حسین کا قتل کر دیے گئے کیا یہ بات درست ہے یا نہیں؟ پھر ہم امام حسن علیہ السلام کے دور اور صلح کی شرائط پر بات کریں گے دیگر ائمہ اطہار نے بھی امام حسن علیہ السلام کی صلح کی شبیہ کے طور پر زندگی گزاری! اصل مسئلہ یہ ہے فقط امام حسن علیہ السلام کی صلح اور امام حسین علیہ السلام کی جنگ مسئلہ نہیں اس مسئلہ پر حوالے سے بحث ہونی چاہیے۔
دونوں آئمہ کی زمانی شرائط میں فرق:
ہم امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے زمانے کی شرائط پر غور کرتے ہیں دیکھتے ہیں کہ کیا شرائط دو طرح کی تھی کہ اگر امام حسن علیہ السلام ، امام حسین علیہ السلام کی جگہ ہوتے تو وہی کرتے جو امام حسین علیہ السلام نے کیا اور اگر امام حسن علیہ السلام کی جگہ امام حسین علیہ السلام ہوتے تو وہی کرتے جو امام حسین علیہ السلام نے کیا یا ایسا نہ کرتے؟ یقیناً ایسا ہی ہے فقط ایک نکتہ عرض کرتی ہوں کہ اگر کوئی یہ پوچھے کہ آیا اسلام صلح کا دین ہے یا جنگ کا، ہم کیا جواب دیں گے؟ قرآن مجید سے رجوع کرتے ہیں ہم قرآن میں دیکھتے ہیں کہ جنگ کا دستور بھی قرآن میں موجود ہے اور صلح کا بھی، کفار اور مشرکین کے لیے جنگ کے بارے میں کئی آیات ملتی ہیں۔
ترجمہ:
“جو لوگ تم سے جنگ کرتے ہیں تم بھی ان سے راہ خدا میں جہاد کرو اور زیادتی نہ کرو۔”
(سورہ بقرہ، آیت 190)
اسی طرح صلح کے بارے میں ہے:
ترجمہ:
“اگر وہ صلح اور سلامتی کی طرف میلان رکھتے ہیں تو تم بھی ایسا کرو۔”
(سورہ انفال، آیت 61)
اور صلح بہتر ہے پس اسلام ان دونوں جنگ یا صلح میں سے کس کا دین ہے؟ اسلام نہ تو صلح کو ایک ثابت حکم کے طور پر قبول کرتا ہے کہ یہ کہا جائے کہ ہر جگہ جنگ ہوگی صلح نہیں ہوگی۔ جنگ و صلح ہر جگہ شرائط کے تحت ہے یعنی اس اثر کے تابع ہے جو اس سے لیا جاتا ہے، مسلمانوں کو چاہیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دور ہو یا امیرالمومنین کا، امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کا دور ہو یا بقیہ آئمہ اطہار علیہ السلام کا ہر جگہ اپنے ہدف اور مقصد کو مدنظر رکھیں، وہ ہدف اسلام اور مسلمانوں کے حقوق ہیں۔وہ یہ غور کریں کہ تمام شرائط اور حالات حاضرہ کا جائزہ لے کر اگر جنگ اور مبارزہ کے ذریعے بہتر انداز میں اپنے ہدف تک پہنچ سکتے ہیں تو پھر اسے اختیار کر لیں یا احتیاطاً تھا یہ تشخیص دے لیں کہ لڑائی جھگڑا ترک کر کے اور صلح کرنے سے بہتر اپنے ہدف تک پہنچ سکتے ہیں تو پھر صلح کا راستہ اپنائیں یہ مسئلہ کہ جنگ یا صلح؟ دونوں درست نہیں دونوں شرائط کے ساتھ مربوط ہیں۔
صلح کا مقام اور جنگ کا مقام:
ہم اس طرح سے اس مسئلے کو سمجھنا چاہتے ہیں کہ جو موارد جہاد کو جائز قرار دیتے ہوں اور منطقی لحاظ سے بھی درست ہوں اور جو موارد صلح کو جائز سمجھتے ہیں منطق کے لحاظ سے بھی قبول کرلیں۔ پھر ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا امام حسن علیہ السلام کا کام صلح کی جگہ جہاد کرنا تھا اور امام حسین علیہ السلام کا کام جنگ کی جگہ تھا یا ایسا نہیں تھا؟ امام حسن علیہ السلام جہاں صلح کرنا تھی صلح کی اور امام حسین علیہ السلام نہ جہاں جہاد کرنا تھا وہاں جہاد کیا جیسے امیر المومنین علیہ السلام اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف موارد میں کیا یہ قطعاً درست ہے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلند مقام پر تو ہم بحث نہیں کر سکتے کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک جگہ صلح کی اور ایک جگہ جنگ کی۔
کیا فرق ہے؟
امام حسین علیہ السلام مسند خلافت پر تھے اور معاویہ بھی ایک حاکم کے عنوان سے موجود تھا اگرچہ اس وقت تک خود کو خلیفہ یا امیر المومنین کا عنوان نہیں دیا تھا اور وہ امیرالمومنین پر ایک طاغی اور اعتراض کرنے والا تھا کہ میں علی کی خلافت کو قبول نہیں کرتا کیونکہ علی علیہ السلام نے خلیفہ عثمان کو جو برحق خلیفہ تھا کے قاتلوں کو پناہ دی حتیٰ کہ خود بھی عثمان کے قتل میں شریک تھا پس حضرت علی علیہ السلام مسلمانوں کے خلیفہ نہیں ہیں معاویہ خود ایک اعتراض کرنے والا تھا بر حق حکومت کو برحق نہیں سمجھتا تھا اس کے علاوہ اس کے ہاتھ سابقہ خلیفہ کے خون میں رنگے ہوئے تھے خلافت کا دعویٰ نہیں کیا تھا اپنے آپ کو امیر المومنین کا لقب نہیں دیا تھا یہی کہتا تھا کہ ہم اس خلافت کی پیروی ہرگز نہیں کریں گے۔
امام حسن علیہ السلام نے امیر المومنین کے بعد مسند خلافت سنبھالی جب کہ معاویہ روز بروز قدرتمند ہوتا رہا ،بعض خاص وجوہات کی بنا پر امیرالمؤمنین کی حکومت دور میں جب امام حسن علیہ السلام بھی اس حکومتی حالت کے وارث تھے تو اس دوران یہ حکومت داخلی طور پر کمزور ہو گئی یہاں تک کہ تاریخ میں موجود ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے 18 دن بعد یہ وہ مدت ہے کہ جب یہ خبر بڑی سرعت تیزی سے شام تک پہنچی اور بعد میں معاویہ نے جنگ کی تیاری کا حکم دے دیا معاویہ عراق کو فتح کرنے کے لیے نکلا اس وقت امام حسن علیہ السلام مسلمانوں کے خلیفہ کی حیثیت سے تھے جس کے خلاف ایک باغی اور خود سر جنگ کے لئے آمادہ ہو، اس حالت میں امام حسن علیہ السلام کے قتل ہونے کا مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں کے خلیفہ کا قتل اور اور مرکز خلافت شکست سے دوچار ہوجائے، امام حسن علیہ السلام کے آخری دم تک لڑائی کی مثال عثمان کی مانند تھی نہ کہ امام حسین علیہ السلام جیسے حالات تھے امام حسین علیہ السلام موجودہ حکومت پر معترض تھے اگر وہ موجودہ حکومت کے مقابلے میں قتل ہو بھی جاتے جبکہ ایسا ہی ہوا اور قتل ہوگئے اس طرح قتل ہونا قابل افتخار ہے۔
امام حسن علیہ السلام کے حالات امام حسین علیہ السلام کے حالات کے برعکس تھے یعنی ایک مسند خلافت پر ہے جبکہ دوسرا معترض ہے اگر قتل ہوتا ہے تو مسلمانوں کا خلیفہ مسند خلافت پر قتل ہوتا ہے حتیٰ کہ حضرت امام حسین علیہ السلام بھی یہ نہیں چاہتے تھے کہ جو مسند پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خلیفہ کے عنوان سے بیٹھا ہے اسے قتل کردیا جائے کیوں؟ فرمایا یہ مکہ کا احترام ہے جو ختم ہو جائے گا، بہرحال مجھے قتل کردیں گے تو پھر کیوں مجھے خانہ خدا میں قتل کریں کیونکہ یہ خانہ خدا کی ہتک حرمت ہے۔
پس اگر امام حسن علیہ السلام مقابلہ کرتے تو آخرکار نتیجہ یہی رہتا جیسا کہ تاریخ سے بھی ثابت ہے کہ وہ قتل ہوجاتے لیکن مسند خلافت پر امام اور خلیفہ کا قاتل اور امام حسین علیہ السلام کا ایک معترض کی صورت میں قتل ہونے میں فرق ہے امام حسین علیہ السلام اور امام حسن علیہ السلام کے حالات میں یہ فرق ہے۔
دوسرا فرق یہ تھا کہ یہ کہنا درست ہے کہ عراق کی طاقت کمزور پڑ گئی تھی یعنی کوفے کی طاقت کمزور ہو رہی تھی البتہ اس طرح بھی نہیں تھی کہ کلی طور پر پوری طرح کمزور ہوگئے تھے اگر معاویہ اسی طرح کاروائی جاری رکھتا تو بلاشبہ جس طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے مکہ فتح کیا تھا وہ بھی ایسا ہی کرتا کیونکہ امام حسن علیہ السلام کے بہت سے اصحاب آپ سے خیانت کر چکے تھے اور کوفہ میں منافقین کی تعداد زیادہ ہوگئی تھی اور کوفہ کی حالت ایسی تھی جو بہت سے تاریخی حوادث کی وجہ بنی۔
کوفہ کا ایک بڑا مسئلہ خوارج کی پیدائش تھا امیرالمومنین خوارج کو ان بے سروپا فتوحات کا موجب سمجھتے تھے یہ لوگ تعلیم و تربیت حاصل کیے بغیر یکے بعد از دیگرے یہ فتوحات حاصل کر رہے تھے جیسا کہ نہج البلا میں درج ہے کہ جو لوگ تعلیم و تربیت سے دور رہے وہ اسلام کو نہ پہچان سکے اسلامی روح سے آشنا نہ ہو سکے ایسے لوگ مسلمانوں کے درمیان چلے آئے بلکہ دوسروں سے زیادہ خود کو مسلمان سمجھتے تھے۔
بہرحال کوفہ میں چند لوگ ایک گروہ بنا چکے تھے دوسری طرف ہم یہ اعتراض بھی کر سکتے ہیں کہ جو اخلاقی اصول و ضوابط اور انسانیت اور دین ایمان کا پابند نہیں ہوتا اس کا ہر میدان میں ہاتھ کھلا ہوتا ہے معاویہ نے کوفہ میں ایک بڑی چھاونی بنا رکھی تھی اچھے خاصے میں پیسے خرچ کیےتھے، کوفہ میں مسلسل جاسوسوں کو بھیجتا رہتا تھا ان کے ذریعے کافی پیسے لوگوں میں بانٹتا تھا جو لوگوں کے ضمیر خرید لیتے منفی پروپیگنڈے کی انتہا کر دی اور لوگوں کو روحانی طور پر خراب کردیا یہ سب اپنی جگہ پر اگر اس حالت میں امام حسن علیہ السلام میدان میں نکل آتے تو ایسا کرنے سے معاویہ ایک بڑے لشکر کا مالک بن جاتا شاید یہ لشکر 30 یا 40 ہزار افراد پر مشتمل ہوتا جس طرح تاریخ میں لکھا ہے امام حسین علیہ السلام ایک لاکھ افراد کا لشکر جمع کر سکتے تھے کہ جو معاویہ کے لشکر جرار جن کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تھی کا مقابلہ کر سکیں لیکن اس کا نتیجہ کیا ہوتا؟ جیسے جنگ صفین امیرالمومنین علیہ السلام کے جن کے لشکر کی تعداد شمن سے زیادہ تھی اٹھارہ ماہ معاویہ سے جنگ کی تاکہ معاویہ کو مکمل طور پر شکست دے سکیں لیکن قرآن بر سر نیزہ جیسی سازش تیار کی گئی ۔امام حسن علیہ السلام اس حالت میں جنگ کرتے تو مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان چند سالہ جنگ شروع ہوجاتی اور بغیر کسی نتیجے کے دسیوں ہزار مسلمان دونوں طرف سے قتل ہو جاتے، یہ احتمال بھی کہ معاویہ جنگ جیت لے جس طرح تاریخ سے ثابت ہے ایسا نہیں زیادہ احتمال اس بات کا تھا کہ امام حسن علیہ السلام شکست سے دوچار ہوجائیں گے یہ امام حسن علیہ السلام کے لیے کیسے قابل فخر امر تھا کہ دو تین سال جنگ کریں اور اس جنگ میں دونوں طرف سے دسیوں ہزار یا اس سے بڑھ کر ایک لاکھ تک مارے جائیں اور دونوں لشکر بے حال ہو جائیں اور امام حسن مغلوب ہو کر مسند خلافت پر قتل ہو جائیں لیکن امام حسین ایسے لشکر کے ہمراہ ہیں جن کی تعداد 72 ہے اور آپ علیہ السلام انہیں بھی اجازت دے رہے ہیں کہ چلے جائیں فرمایا: اگر تم جانا چاہتے ہو تو چلے جاؤ، میں تن تنہا ان کا مقابلہ کروں گا یہاں تک کہ قتل ہو جاؤ ایسا قتل ہو جاؤں۔ ایسا قتل جو قابل فخر ہو۔
پس یہ دو فرق موجود ہیں ایک یہ کہ امام حسن علیہ السلام مسند خلافت پر تھے اگر قتل ہوجاتے تو مسلمانوں کا خلیفہ مسند خلافت پر قتل ہوتا ہے ،دوسرا یہ کہ امام حسن علیہ السلام کے لشکر کی تعداد کم از کم معاویہ کے لشکر کے برابر تھی اس جنگ کا نتیجہ یہ نکلتا کہ سال ہا سال مسلمان جنگ کرتے اور ہزاروں مسلمان کسی صحیح نتیجے پر پہنچے بغیر قتل ہو جاتے۔
Add Comment