حمد کامل اور ثناۓ تام کے لائق ہے وہ ذات جس نے پردۂ عدم میں چھپی ہوئی چیزوں کو زیور وجود سے آراستہ فرما کر اپنے واجب الوجود ہونے کا اظہار فرمایا نہ لفظوں کے پیچ و تاب اس کی حقیقت کو بیان کر سکتے ہیں اور نہ فکر کی گہرائیاں اس کی لا محدود ربوبیت کا ادراک کر سکتی ہیں اگر اس کے قرب کو دیکھا جائے تو وہ رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہے اور اگر اس کی دوری پر نظر کی جائے تو وہ فکر و خیال کی سرحدوں سے بھی لامتناہی طور پر دور ہے وہ اضداد اجناس کا خالق اور بے جان ان قالیوں میں جان ڈالنے والا ہے اس نے اپنی صفات کسب فیض کے نیچے میں نہیں پائیں بلکہ اس کی تمام تر صفتیں اس کی عین ذات ہیں، یعنی جب سے وہ ہے اسکی یہ صفات اس کے ساتھ موجود ہیں چنانچہ وہ ہے، ہوا نہیں، وہ سنتا اور دیکھتا ہے مگر آلہء سماعت و بصارت کا محتاج نہیں۔۔۔۔۔۔ بلکہ وہ تو اس طاقت کو بھی دیکھنے والا تھا کہ جب کوئی بھی دکھائی دینے والی چیز ہی نہ تھی اور وہ اس وقت بھی سننے والا تھا کہ جب کوئی سنائی دینے والی چیز ہی نہ تھی۔۔۔۔۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اور اس کی بزرگی کو زوال نہیں۔
اور درود و سلام ہو اس کے ان برگزیدہ اور مصطفیٰ بندوں پر کہ جنہیں اس نے اپنے ادارے کی زبان اور اپنی وحی کا ترجمان بنایا جن کی حیات مبارکہ کا لمحہ لمحہ اس کی اطاعت اور بندگی میں گزرتا ہے جن کی معرفت اس کی معرفت کی بلندیوں تک پہنچنے کا زینہ ہے اور جو اس کی مخلوق میں اس کے نائب اور سالکان راہ حق مرشد و پیشوا ہیں۔۔۔۔۔۔
وہ مثل آفتاب اس دنیا میں طلوع ہوئے اور انہوں نے اپنی ذات سے توحید پروردگار عالم کو ظاہر کیا اور عالمین کے معلم بن کر انہیں اس لاشریک ذات کی وحدانیت و عبادت کا درس دیا اور عالم کن اور اس سے بالا جہاں بھی، جیسے بھی، جو کچھ بھی ہوا، انہیں ان کے طفیل اور انہیں وجہ سے ہوا، یعنی اگر کسی نے ایمان کے معارض و معالی کو پایا تو وہ بھی انھیں ذوات مقدسہ علیہ السلام کے صدقے میں پایا اور اگر کوئی رجیم اور ابدی لعنت کا مستحق ٹھہرا تو وہ بھی انھیں کے حق میں کوتاہی اور انہیں کی شان میں تقصیر کے سبب۔۔۔۔۔۔۔
تعریف ہے رب العالمین کی حکمت کے لیے جس نے انسانیت کو گمراہی کی گھاٹیوں سے بچانے کے لیے ہر دور اور ہر قوم کے لیے رہنما ارسال فرمائے، انہیں جھوٹ کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے صداقت کے آفتاب منور کیے اور جہالت کی تاریکیوں کو نابود کرنے کے لیے علم لدنی کے چراغ روشن فرمائے۔ اللہ تعالی کی طرف سے یہ مقرر کردہ ہادی کبھی انبیاء علیہ السلام حق کی شکل میں تو آئمہء ہدی علیہ السلام کی حیثیت سے۔ نبی اول حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر سرکار خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک اور امام اول حضرت علی مرتضی علیہ السلام سے لے کر امام آخرالزماں حضرت امام مہدی علیہ السلام تک ،خدا وند رحمان کے یہ تمام کے تمام نمائندے خدائی صداقت کے مبلغ، صراط مستقیم کے رہنما اور علم الٰہی کے مظہر بن کر دنیا میں جلوہ افروز ہوتے رہے ان سب کا پیام حق، کلام صدق، عمل خیر اور مشن انسانیت کی ابدی فلاح کے علاوہ کچھ نہ تھا۔
ہاں یہ علیحدہ بات ہے کہ کس ھادی کو تبلیغ حق اور نشر علم و دین کے لیے کتنا ساز گار ماحول میسر آیا وہ صداقت کا مجسم خانوادہ، جس کا دامن تھامنے کا حکم واحدۂ لا شریک ذات نے اپنی لاریب کتاب میں دیا ہے یعنی خانوادۂ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آل محمد علیہ السلام کے سارے کے سارے افراد صدق الہی کے مظہر ہیں اور مندرجہ بالا تمہید اسی خانوادے کے ایک ایسے فرد کے تعارف کے لئے رقم کرنا پڑی کہ تاریخ عالم جس کو نام سے زیادہ “صادق آل محمد علیہ السلام” کے لقب سے یاد کرتی ہے مجھ جیسی کم مایی اور بے بساط بندی اس آفتاب ہدایت اور مینارۂ صداقت کا کیا تعارف کروائے گا۔ ایسی شخصیات کے تعارف کا حق ادا کرنے کے لیے لسان نور کی ضرورت ہوتی ہے جس کا دعویٰ میری جیسی گنہگار مرتے دم تک نہیں کر سکتی البتہ چند سطریں سپرد قرطاس کرکے اپنی شفاعت کا سامان ضرور کیا جا سکتا ہے۔
17 ربیع الاول 83ہجری شب جمعہ، طلوع صبح صادق کے وقت مدینہ منورہ کی پاک و پاکیزہ سرزمین پر ،حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے شک فردوس آنگن میں اور حضرت ام فروہ بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنھا کی مقدس آغوش میں صداقت کا وہ سورج جگمگایا جس کی شعاعیں آج بھی جھوٹ کے پردوں کو چاک کر رہی ہیں علم کا ایسا چہرہ روشن ہوا جس کی لو آج بھی جہالت کی تمناؤں کو دو لخت کر رہی ہے وہ بچہ جس کا نام امام باپ اور امام دادا نے “جعفر علیہ السلام” تجویز فرمایا اسی جعفر ابن محمد ابن علی ابن حسین ابن علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو زمانے نے فاضل، طاہر، قائم ،صابر، مصدق اور کاشف وغیرہ جیسے پاکیزہ القابات سے پہچانا لیکن ” صادق” کا لاحقہ امام ششم امام جعفر صادق علیہ السلام کے نام کا یوں جزو بنا کر حاسد چاہے بھی تو اس کو آپ علیہ السلام کے نام سے جدا نہیں کر سکتا کیونکہ آپ علیہ السلام کے نام سے لفظ صادق کو جدا کرنے سے آپ علیہ السلام کا کوئی نقصان نہ ہوگا، ہاں خود لفظ صادق ضرور بے حیثیت ہو جائے گا۔
صادق آل محمد علیہ السلام کم و بیش بارہ سال تک اپنے جد بزرگوار سید الساجدین زین العابدین امام علی ابن الحسین علیہ السلام کے زیر تربیت رہے اور اس کے بعد آپ علیہ السلام نے 19 سال تک اپنی حیات مبارکہ کے چند قیمتی سال اپنے والد گرامی امام محمد باقر علیہ السّلام کے زیر سایہ گزرے۔ جھولے کی عمر کے معجزات و کرامات کی گواہی اہل خانہ نے دی تو لڑکپن کے علمی اور عملی کمالات پر زمانہ گواہ ہوا تاریخ شاہد ہے کہ امام علیہ السلام اگر جھولے میں بھی گریہ کناں ہوۓ تو خوف خدا سے نہ کہ عام بچوں کی طرح بچگانہ فطرت کی وجہ سے ۔لڑکپن کی عمر میں شرارت یا فضولیات کا شائبہ تک نہ دیکھا گیا اور جوانی سورج کی دھوپ کی طرح بے داغ اور لہو و لعب سے خالی نظر آئی۔
تہذیب الاسلام میں درج عمر بن ابی المقدم کا دن کے قول کے مطابق امام جعفر صادق علیہ السلام کے چہرے سے اندازہ ہوتا تھا کہ آپ علیہ السلام کی شخصیت ساری نبوتوں کا خلاصہ ہے تبلیغ دین اور ترویج حق امام علیہ السلام کا شیوہ رہی ہے حضرت امام زین العابدین اور حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے ملنے کے لیے آنے والے حضرات اس کمسن جانشیں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی فیضاب ہو کر جاتے تھے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے کھیل کود میں بھی اپنے ہم عمر بچوں کو ایسے ہی کھیلوں کی طرف راغب فرماتے تھے جن میں علم اور درس و تدریس کا عمل شامل ہوتا تھا۔
روایات میں مذکور ہے کہ امام علیہ السلام اپنے ہم عمر بچوں کو اکٹھا کرتے اور استاد بن کر ایک جگہ تشریف فرما ہوتے اور باقی بچے طلاب کی طرح سامنے بیٹھ جاتے اور ہوں امام علیہ السلام کھیل ہی کھیل میں بچوں کے جنرل نالج میں اضافہ فرما دیتے تھے گویا امام علیہ السلام کا زمانہ رنج و محن اور مصائب و آلام سے پر تھا لیکن ایک وقت ایسا آیا جس میں امام علیہ السلام کو وہ سہولت میسر آئی جو آپ علیہ اسلام سے پہلے یا بعد میں کس امام علیہ السلام کو میسر نہ ہوئی سرکار صادق آل محمد علیہ السلام کی یہ خوش قسمتی ہے کہ آپ علیہ السلام کو ایسا زمانہ نصیب ہوا جب بنی امیہ کے اقتدار کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں اور بنی عباس قدم جمانے کی تک و دو میں مصروف تھے یعنی دونوں دشمنوں کی توجہ آل محمد علیہ السلام سے قدرے ہٹ چکی تھی چنانچہ امام علیہ السلام نے اس زمانے میں حق کی ترویج اور مذہب معصومین علیہ سلام کی تبلیغ اس طرح فرمائی کہ چہاردہ معصومین علیہ السّلام کا مذہب “فقہ جعفریہ” کے نام سے مشہور ہو گیا۔
امام جعفر صادق علیہ السلام جانتے تھے کہ آپ علیہ السلام کے ماننے والوں کو سیاسی طاقت میسر نہیں اور نہ ہی اس کے حاصل ہوجانے کا مستقبل قریب میں کوئی امکان موجود ہے لہذا شیعہ مذہب کی اساس کو مضبوط رکھنے اور اسے توسیع دینے کا ایک ہی راستہ تھا اور وہ تھا آئیڈولوجی کی بنیادیں مضبوط کرنے کا اور اپنے مذہب کو ایک توانا ثقافت مہیا کرنے کا ۔چنا چہ آپ علیہ السلام نے مذہب شیعہ کے لئے ایسے ایسی علمی، ادبی اور نظریاتی ثقافت کی بنیاد رکھی جس میں آزادانہ طور پر علمی مسائل اور نظریاتی موضوعات پر بحث ہوتی تھی اور اسی نظریاتی و علمی ثقافت کے باعث مذہب شیعہ حکومتوں کے عتاب کے باوجود زندہ رہا۔ اس سلسلہ میں امام علیہ السلام نے تعلیم علم کے لیے پہلے اپنے گھر کو دارالتعلیم میں بدلا اور پھر مسجد کوفہ اور ظہر کوفہ نجف اشرف میں باقاعدہ جامعہ کا قیام فرمایا آپ علیہ السلام کے مدرسۂ علمیہ کے بارے میں ہمیں امیر حلی ” تاریخ عرب “م لکھتے ہیں:
“اسلام میں فکر و نظر کے اعتبار سے یہ پہلا مدرسہ تھا جسے امام جعفر صادق علیہ السلام نے قائم کیا آپ علیہ السلام کے درس میں علمائے فقہ و حدیث کے علاوہ بڑے بڑے فلاسفہ و مناطقہ اور صاحبان فکر و نظر بھی شریک ہوا کرتے تھے۔”
رسالہ ” السلام” کے مطابق آپ علیہ السلام کا گھر ایک دارالعلم کی شکل اختیار کر گیا تھا جہاں مختلف علماۓ کبار فقہ و حدیث حکمت و کلام اور تفسیر وبیان کے علوم حاصل تھے اس کے بعد امام جعفر صادق علیہ السلام عراق تشریف لائے اور آپ علیہ السلام نے کوفہ و نجف میں علمی درسگاہ قائم فرمائی۔ نجف اشرف میں آپ علیہ السلام کا قائم کردہ دارالعلم آج بھی موجود ہے اور روز اول کی طرح آج بھی حکومتی مخالفتوں کے باوجود علم کی نعمت تقسیم کرنے میں مصروف بہ عمل ہے امام علیہ السلام سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے آپ علیہ السلام کے مدرسہ سے فیض علم حاصل کرنے والوں کی تاریخ نے کم سے کم تعداد 4000 بیان کی ہے۔ علم دین و فقہ ہو یا علم لسانیات و لغت، علم تفسیر و حدیث ہو یا علم منطق و فلسفہ، علم کلام ہو یا علم بیان، علم صرف و نحو ہو یا علم اعداد و جفر، علم شعر و عروض ہو یا علم فلکیات و سائنس کون سا ایسا علم ہے ہے جس کی تعلیم کا آغاز صادق آل محمد صلی اللہ اللہ علیہ وسلم نے نہ فرمایا۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے فقہ و شریعت کا درس لینے والے زمانے میں امام مذہب کہلائے، مثلاً ایک طرف امام ابو حنیفہ امام صادق علیہ السلام کی شاگردی کو اپنی ہلاکت سے امان کی وجہ بتاتا تو دوسری طرف جریر طبری جیسا مورخ بھی جسے دنیا علم تاریخ کا امام مانتی ہے تاریخ پر اپنے ناقدانہ رویے کو صادق آل محمد علیہ السلام کے فیض کا نتیجہ بتاتا ہے۔
Add Comment