سیرت اہل بیت علیھم السلام گریہ و زاری

حضرت علی اکبر بن امام حسین علیہ السلام کے فضائل و مصائب

 موت کے کارواں کا سفر:

تاریخ نے اسے نقل کیا ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام عازم کربلا تھے تو دوران سفر سواری کی حالت میں سر زین پر رکھ دیا اور نیند آگئی ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ کہ سر کو بلند کیا اور فرمایا ” انا للہ و انا الیہ راجعون ” جیسے ہی یہ جملہ کہا، اصطلاحات ” کلمہ استرجاع” زبان پر لائے سب ایک دوسرے سے کہنے لگے ، یہ جملہ کیوں کہا؟ کیا کوئی نئی خبر ملی ہے؟ آپ علیہ السلام کے عزیز فرزند امام حسین علیہ السلام بہت دوست رکھتے تھے نے یہ ظاہر کیا اور ایسی خصوصیت جو فرزند کو اپنے والد کے نزدیک زیادہ محبوب اور پسندیدہ بنا دیتی ہیں، جو خصوصیت اکثر محبوبیت کا باعث بنی ، وہ حضرت علی اکبر علیہ السلام کی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کامل شباہت تھی یعنی علی اکبر علیہ السلام آگے بڑھے اور عرض کیا: یا ابتاہ الم امترجعت؟
آپ علیہ السلام نے آنا لله و انا الیہ راجعون کیوں پڑھا؟
فرمایا: عالم خواب میں صداۓ ھاتف سنی جو یہ کہہ رہا تھا، القوم یسیرون و الموت تسیر بھم
یہ قافلہ جو حرکت کر رہا ہے دراصل موت اس قافلے کو حرکت دے رہی ہے ھاتف کی اس صدا سے میں یہ سمجھی ہوں ہمارا انجام موت ہو گئی ہم قطی طور پر موت کی طرف حرکت کر رہے ہیں۔
علی اکبر علیہ السلام ایک بات کرتے ہیں وہی بات جو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کی تھی۔
کہا: بابا جان! اولسنا علی الحق؟ کیا ہم پر حق نہیں؟ بیٹا کیوں نہیں۔
جب ہم حق پر ہے تو پھر ہمارا انجام جیسا بھی ہو موت یا حیات ،کوئی فرق نہیں پڑتا، اصل میں راہ حق پر ہونا اہم ہے۔ابا عبداللہ علیہ السلام بڑے مسرور ہوئے، حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: میں اس پر قادر نہیں ہوں کہ تجھ جیسے فرزند کو اس کی جزا پر کیا دوں۔ خدا سے یہی دعا ہے! خدایا ایسی جزا جو اس جیسے فرزند کے لائق ہو میری جگہ تو عنایت فرما! جزاک اللہ عنی خیر الجزاء۔
امام حسین علیہ السلام کو ایسے فرزند سے کتنی محبت ہو گی ؟ کتنا چاہتے ہوں گے کہ مناسب موقع پر اس کو انعام دینا چاہتے تھے کیا دیں؟ غور کریں۔
عاشورا کے دن ظہر کا وقت ہے، یہی جوان اپنے بابا کے سامنے میدان جنگ میں گیا، شجاعت اور شہادت کے جوہر دکھائے، کئی ایک کو جہنم رسید کیا، زخمی کیا اور زخم کھاۓ۔ اس حالت میں واپس آئے کہ میں زبان لکڑی کی مانند خشک ہو چکی ہے ،میدان سے واپس آئے اور اس تمنا کا اظہار کیا:
بابا جان! پیاس اتنی شدید ہے کہ مجھے کیے دے رہی ہے اسلحہ کی سنگینی نے مجھے سخت زحمت میں ڈال رکھا ہے، ممکن ہے کہ ایک گھونٹ پانی مل جائے تاکہ جسم میں جہاد کرنے کی طاقت ہو۔
امام حسین علیہ السلام ایسے فرزند کو کیا جواب دیں جو خاندان پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرد پہلے شہید ہوا وہ جناب علی اکبر علیہ السلام ہیں اور آخری جناب ابو الفضل العباس علیہ السلام ہیں، یعنی جب ابو الفضل العباس علیہ السلام شہید ہوۓ سب اصحاب اور اہلیت علیہ السلام سے کوئی باقی نہیں رہ گیا تھا۔ فقط یہ اور حضرت سید الشہداء باقی بچے تھے۔

حضرت علی اکبر علیہ السلام اور میدان جنگ کی اجازت:

اہل بیت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جوانان میں سب سے پہلے حضرت علی اکبر علیہ السلام سے اجازت لینے میں کامیاب رہے، آپ علیہ السلام کے عزیز فرزند علی اکبر علیہ السلام جوان تھے، امام حسین علیہ السلام نے خود ان کی شہادت دی، لوگوں میں سے سب سے زیادہ شبیہ ترین اخلاقی اور منطقی حوالے سے اور بات کرنے کا انداز پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا تھا تو ایسا محسوس ہوتا گویا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بات کر رہے ہیں۔ اس قدر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہ تھے کہ خود ابا عبداللہ نے فرمایا: خدایا! تو خود جانتا ہے کہ جب ہم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کے مشتاق ہوتے تھے تو اس جوان کی زیارت کیا کرتے تھے ، جو ہو بہو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مانند ہے۔ یہ جوان اپنے بابا کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا، بابا جان! مجھے جہاد کی اجازت دیجیئے۔
کی اصحاب کے بارے میں اس کا اثر جوانوں کے بارے میں بھی روایت نقل کی ہے کہ جب اجازت لینے حضرت امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں آتے تب حضرت امام حسین علیہ السلام کسی نہ کسی انداز سے انہیں روکتے تھے حضرت قاسم علیہ السلام کی داستان جو مکرر آپ علیہ السلام نے سنی ہے۔لیکن جب علی اکبر علیہ السلام میدان جنگ میں جانے کی اجازت لینے آئے تو آپ علیہ السلام نے سر جھکا لیا اور یہ جوان میدان جنگ کی طرف روانہ ہو گیا۔

یاس و ناامیدی امام حسین علیہ السلام کی نگاہ میں:

امام حسین علیہ السلام یعنی انسان کامل حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا یعنی انسان کامل، یعنی یہ عام انسانی خصوصیات کے حامل ہیں۔ وہ بھی اعلیٰ اور ملائکہ، یعنی ایک انسان کی مانند انہیں بھوک لگتی ہے لہذا غذا کھاتے ہیں، پیاس لگتی ہے پانی پیتے ہیں۔ غریزہ جنسی بھی رکھتے ہیں، ان جذبات بھی ہیں ہیں لہٰذا ان کی اقتداء کی جاسکتی ہے، اگر یہ اس طرح سے نہ ہوتے ، سب یہ پیشوا اور امام نہ ہوتے، اگر ایک انسان اپنے فرزندوں پر پر آنے والے مصیبت پر رنجیدہ نہ ہو ، اگر اس کے بچے کو اس کے سامنے ہی ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جاتا، تو اسے کوئی دکھ اور درد نہ ہو، اگر اس طرح ہوتا کہ ٹکڑے ٹکڑے کرنے والے کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جاتے، یہ تو کوئی کمال نہ ہوتا، میں بھی اگر اس طرح یہ کام کرتی کہ کرنے والے کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ان میں جذبات اور انسانی پہلو ہم سے قوی تر ہے اور اس حوالے سے وہ فرشتہ جبرائیل امین علیہ السلام سے بھی بالاتر ہے لہذا امام حسین علیہ السلام کو پیشوا قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ تمام خصوصیات آپ علیہ السلام میں موجود ہیں۔ جب حضرت علی اکبر علیہ السلام جازت لینے کے لیے آئے تو آپ علیہ السلام کے دل میں گویا کسی نے آگ لگا دی ہو، سوفیصد فرزند کی دوستی کی محبت کے جذبات ہم سب سے آپ علیہ السلام میں زیادہ ہیں یہی جذبات اصل میں انسانیت کا کمال ہے ،جو رضاۓ خدا کے لئے ان سب جذبات کو نظر انداز کر دیتا ہے۔
حضرت علی اکبر علیہ السلام آۓ اور کہا بابا جان مجھے جانے کی اجازت ہے؟
فرمایا: اے میرے فرزند عزیز! جاؤ۔
انسانی نفسیات یہ کہتی ہیں کہ روحانی حالات پر ہونے والی تاثیر ر انسان کے بدن پر واضح ہو جاتی ہے مثلاً جب ایک خوشخبری ملے تو بے اختیار کیا اس کی آنکھیں کھل جاتی ہیں ،اگر کوئی شخص اپنے کسی عزیز کے سرہانے پہنچے جب کہ اسے یقین ہو کہ یہ مر جائیگا جب اس کے چہرے کی طرف دیکھے گا تو اس کی آدھی آنکھیں بند ہو جائیں گی نیم کھلی آنکھوں سے اسے دیکھے گا جیسے دل سے راضی نہیں ہے کہ پوری آنکھیں کھول کر دیکھے اس کے برخلاف اگر اس کا بیٹا کوئی کامیابی حاصل کرے یا اس کی شادی ہو تب اس کی آنکھیں کھلی ہوں گی۔
کہتے ہیں: ہم نے امام حسین علیہ السلام کو دیکھا کہ اپنی آنکھیں بند کر لیں اور جوان کی طرف نگاہ کی۔ گویا یہ جذبہ حضرت علی اکبر امام حسین علیہ السلام کو اس جوان کے پیچھے چند قدم چلنے پر مجبور کر دے گا۔ اپنے پیچھے آنے پر مجبور کر دیے گا۔ امام حسین علیہ السلام چند قدم اس جوان کے پیچھے چلے۔

حضرت علی اکبر علیہ السلام پر پیاس کا غلبہ:

حضرت علی اکبر میدان میں پہنچ گئے، مورخین کا اجماع ہے کہ جناب علی اکبر علیہ السلام نے بڑی جانفشانی اور بہادری سے مبارزہ کیا، جس کی نظیر نہیں ملتی، جب مبارزہ سے تھک گئے، اپنے بابا کی خدمت میں آۓ۔ یہ تاریخ کا معمہ ہے ان کا مقصد کیا تھا اور کیوں آئے؟ اے بابا جان! پیاس مجھے مار دے گی، اس اسلحہ کے وزن نے مجھے تھکا دیا، اگر ایک گھونٹ پانی مل جائے تو توانائی آ جائے گی، پھر حملہ شروع کر دوں گا۔
یہ بات امام حسین علیہ السلام کے تن بدن میں آگ لگا دیتی ہے، کہتے ہیں: اے میرے فرزند! دیکھو میری زبان تو تمہاری زبان سے زیادہ خشک ہے، لیکن میں وعدہ کرتا ہوں کہ اپنی جد کے ہاتھوں پانی سے سیراب ہو جاؤ گے، یہ جوان پھر میدان کا رخ کرتا ہے اور مبارزہ جاری رکھتا ہے۔

حضرت علی اکبر علیہ السلام کی شہادت:

حمید بن مسلم جو راوی حدیث ہے، ایک خبر نگار کی مانند کربلا کے صحرا میں موجود تھا، لیکن جنگ میں شرکت نہیں کی اکثر واقعات کو اس نے نقل کیا ہے کہتا ہے کہ میں ایک مرد کے قریب تھا جب علی اکبر علیہ السلام حملہ کرتے تو سب بھاگ کھڑے ہوتے تو وہ ناراحت ہوا ،خود وہ مرد بھی شجاع تھا اس نے کہا میں قسم اٹھاتا ہوں کہ اگر یہ جوان میرے قریب سے گزرا تو ایسا وار کروں گا کہ اس کے باپ کا دل بھی زخمی ہو جائے گا۔
میں نے اسے کہا: تمہیں اس سے کیا کام چھوڑو آخرکار قتل ہوجائے گا۔
اس نے کہا: نہیں۔
علی اکبر علیہ السلام جیسے ہی اس کے قریب سے گزرے اس نے بے خبری میں ایسا نیزے کا وار کیا کہ آپ علیہ السلام توازن برقرار نہ رکھ سکے اور اپنے بازو گھوڑے کی گردن میں ڈال دیے کیوں کہ توازن برقرار نہیں رکھ سکے ، یہاں فریاد بلند کی۔
بابا جان! اب میں چشم دل سے اپنی جلد کو دیکھ رہا ہوں اور شربت سے سیراب ہو رہا ہوں گھوڑا جناب علی اکبر علیہ السلام کو دشمن کے لشکر میں لے گیا ایسا گھوڑا تھا گویا اس کا سوار ہی نہ ہو، لوگوں کے درمیان چلا گیا، یہاں بڑا عجیب جملہ کہا گیا:
فاحتمله الفرس الی عسکر الاعداء فقطعوہ بسیو فھم اربا اربا