شب عاشور یاران امام حسین علیہ السلام کی وفاداری کا اعلان:
شب عاشور مختلف کاموں میں سے ایک کام یہ بھی تھا کہ کچھ افراد جو اہل فن تھے کو حکم دیا گیا آج کی شب تلواریں، نیزے تیار رکھے جائیں اور خود امام حسین علیہ السلام اس کام کی نگرانی کرتے رہے، ایک صحابی جس کا نام جون ہے جو اسلحہ کے ماہر تھے حضرت امام حسین علیہ السلام جاتے اور اس کے کام کو دیکھتے رہتے۔ دوسرا کام جو امام حسین علیہ السلام نے اس شب انجام دیا، آپ علیہ السلام نے حکم دیا کہ آج کی شب خیمے ایک دوسرے کے قریب کر لیے جائیں، اس طرح نزدیک سے خیمے لگائے گئے کہ ایک خیمے کی طنابیں دوسرے خیمے کے ساتھ نصب ہوں گئیں۔ اس طرح خیموں کے درمیان سے عبور کرنا ممکن نہیں تھا پھر یہ بھی حکم دیا کہ خیموں کو حلال کے چاند کی شکل دی جائے اور اسی شب خیموں کی پشت پر خندق کھودی جائے تاکہ دشمن کے گھوڑے خیموں کی پشت سے حملہ آور نہ ہوں۔
ایک فرمان یہ دیا کے کچھ خشک لکڑیاں جمع کی جائیں جو وہاں بہت زیادہ تھی تاکہ صبح عاشور انہیں آگ لگا دی جائے جب تک ہم زندہ رہیں دشمن خیمے کے پیچھے سے حملہ آور نہ ہو۔ ایک اور کام جو آپ علیہ السلام نے اس شب انجام دیا تمام اصحاب کو ایک خیمہ میں جمع کیا اور آخری مرتبہ اتمام حجت کے لیے ایسا کیا۔ سب سے پہلے ان کا شکریہ ادا کیا، بہت زیادہ بلیغ اور عمیق تشکر کے بعد اپنے خاندان اور اصحاب سے فرمایا: میرے اہل بیت سے بہتر اہل بیت اور میرے اصحاب سے بہتر اور باوفا اصحاب کا مجھے سراغ ملا۔
اسی طرح فرمایا: جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ میرے علاوہ انہیں کسی اور سے کوئی غرض نہیں نہیں ان کا ہدف فقط میں ہوں اگر مجھے حاصل کر لیں تو تم سے کوئی غرض نہیں ہوگی۔ آپ اس شب کی تاریکی سے فائدہ اٹھائیں اور سب چلے جائیں تو ایک طرف سے اصحاب نے یہ کہنا شروع کر دیا:
یا اباعبداللہ! ہم ایسا کر لیں؟
بدا ھم بھذا القول العباس بن علی علیہ السلام
سب سے پہلے جس نے یہ بات کی وہ آپ علیہ السلام کے بھائی ابوالفضل العباس علیہ السلام تھے۔
یہ موقعہ تھا جو حقیقت میں تاریخی اعتبار سے انتہائی اہم ہے ہر کوئی اپنی تعبیر کے مطابق بات کرتا تھا ایک اگر کہتا تھا آقا! اگر مجھے قتل کر دیا جائے اور میرے بدن کو آگ لگا دی جائے اور اسے ہوا میں اڑا دیا جائے اور دوبارہ زندہ کیا جائے اور ستر مرتبہ اس کا تکرار کیا جائے تب بھی میں آپ علیہ السلام کو نہیں چھوڑ سکتا ہماری یہ نا چیز جان اس قابل ہی نہیں کہ آپ علیہ السلام پر قربان کی جا سکے۔
ان میں سے ایک نے یہ کہا اگر مجھے ہزار مرتبہ قتل کر دیں آپ علیہ السلام کو نہیں چھوڑ سکتا حضرت امام حسین علیہ السلام نے ہر وہ کام جو لازم تھا انجام دیا اور تاکہ خالص مخلص افراد رہ جائیں۔
امام حسین علیہ سلام نے دوستوں کی آزمائش کی:
امام حسین علیہ السلام نے اپنے خطاب میں یہ اعلان کیا:
فمن کان باذلا دینا مھحته موطنا علی لقاء اللہ نفسه فلیر حل معنا فانی مصبحا ان شا اللہ
جو اپنا خون دل ہمارے راستے میں بہانے کے لئے آمادہ ہے اور جو رضائے پروردگار مصمم رکھتا ہے ایسا شخص ہمارے ساتھ نہ آۓ ہمارا قافلہ جانثاروں کا قافلہ ہے چلنے کے لئے تیار ہو جائے آئے جو جو اپنی جان نہیں دے سکتا ہمارے ساتھ نہ آئے ہمارا قافلہ جاننساروں کا قافلہ ہے اس قافلے میں امام حسین ابن علی علیہ السلام کے عزیز ترین عزیز بھی ہیں اگر امام حسین بن علی علیہ السلام اپنے عزیزوں کو مدینہ ہی چھوڑ دیتے تو کسی نے اعتراض کرنا تھا؟ کبھی بھی کوئی اعتراض نہ کرتا لیکن اگر اپنے عزیزوں کو کربلا کے معرکہ میں نہ لاتے تنہا شہید ہو جاتے جو اہمیت اب بنی ہے یہ بن سکتی تھی؟ نہیں۔ امام حسین علیہ سلام نے ایسا کام کر دکھایا کہ راہ خدا میں قربانی کی مثال قائم کر دی یعنی میدان عمل میں تنہا تک پہنچ گئے راہ خدا میں قربانی کے لئے کچھ بھی نہیں بچا تھا عزیز بھی ایسے نہیں تھے کہ امام حسین علیہ السلام انہیں زبردستی لائے ہوں ہم عقیدہ ہم فکر اور ہم ایمان تھے امام حسین بن علی علیہ السلام کسی ایسے فرد کو اپنے ساتھ لانے کے لئے تیار نہیں تھے جس میں معمولی سا بی کمزور پہلو ہو لہٰذا دو تین مرتبہ آزمائش کرنے اور تجزیہ و تحلیل کرنے کے بعد بلکہ روز اول جب مکہ سے سفر کرنے لگے یہ اعلان کر دیا کہ جو جانباز نہیں ہے وہ نا آئے ابھی بعض یہ خیال کرتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کوفہ چلے جاتے تو شاید یہ مسئلہ پیش آتا آنا جانا رہتا آقا بن جاتے ہمیں بھی پیچھے نہیں رہنا چاہیے حسین علیہ السلام کے ہی ساتھ چلتے ہیں کچھ لوگ راستے میں بادیہ نشین عرب امام حسین کے ساتھ ملے ہوں۔
آخری آزمائش:
امام حسین علیہ السلام نے راستے میں ایک خطبہ دیا کہا: ایھا الناس! اگر کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ ہم ایک رتبہ حاصل کر لیں گے کسی مقام پر پہنچ جائیں گے ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے وہ واپس چلا جائے کچھ واپس چلے گئے آخری آزمائش شب عاشور کی تھی لیکن شب عاشور کوئی واپس جانے والا نہیں تھا۔
بعیت کی تجدید لازمی ہے:
امام حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے بیعت لی اور شب عاشور فرمایا: میں اپنی بیعت اٹھائے لیتا ہوں۔
مسلم علیہ السلام نے بھی کوفہ میں لوگوں سے بیعت لی۔
دوستوں کا امتحان:
امام حسین ابن علی علیہ السلام کے ہمراہ کافی لوگ آئے تھے، شروع میں شاید ایسے لوگ بھی شامل ہوگئے تھے وہ اس خیال میں تھے کہ ممکن ہے کہ امام حسین ابن علی علیہ السلام کی باتوں میں کچھ مبالغہ ہو شاید بعد میں اپنی سلامتی کی فکر کرنے لگیں ابھی راستے میں بھی چند لوگ ساتھ ہوئے لیکن امام حسین علیہ السلام نہیں چاہتے تھے کہ ضیعف اور بزدل ان کے ہمراہ ہوں مختلف مواقعے پر آپ علیہ السلام اسلام کے خطبات نے اصحاب کا تصفیہ کر دیا ایسے افراد جو اس قابل نہ تھے جدا ہو گئے، خارج ہوگئے آزمائش کے بعد اس قابل نہ رہے فقط خالص ترین رہ گئے ایسے افراد باقی رہ گئے کہ جن کے بارے میں امام حسین ابن علی علیہ السلام نے شہادت دی کہ میرے یار و مددگار سے بہتر کسی کو نہ مل سکے یعنی میرے اصحاب یعنی اگر اصحاب بدر اور تمہارے درمیان فیصلہ کرنا پڑے گا میں تمہیں ترجیح دوں گا اگر اصحاب احد اور تمہارے درمیان امر دائر ہو تو میں تمہیں ترجیح دوں گا اگر اصحاب صفین سے تمہارا مقابلہ ہو تو میں تمہیں ترجیح دوں گا تم تمام شہداء کے سر کا تاج ہو ، شب عاشور جب امام حسین علیہ السلام نے رخصت کرنا چاہتے تو کہا میں اپنی بیعت اٹھائے لیتا ہوں دشمن کی طرف سے بھی اطمینان دلایا کہ ہے تمہیں دشمن کو کچھ نہیں کہے گا۔ سب کہنےلگے: آقا! ہم نے آپ علیہ السلام کی شہادت کو منتخب کر لیا ہے ایک جان کی تو اہمیت ہی نہیں اے کاش ہزاروں جانیں ہوتیں سب کچھ آپ علیہ السلام کی راہ میں فدا کر دیتے سب سے پہلے ابو الفضل العباس علیہ السلام نے یہ بات کہی کس قدر امام حسین علیہ السلام کے مقدس قلب کو شاد کر دیا اس بات نے کہ ایسے اصحاب آپ علیہ السلام کے ہمراہ ہیں جو آپ علیہ السلام کے ساتھ ہم آہنگ ہم فکر ہم عقیدہ ہم مقصد ہیں۔
اس وقت امام حسین علیہ السلام نے ان کے لیے کچھ مطالب بیان کئے اور فرمایا اب کام یہاں تک پہنچ گیا ہے تو پھر کل ہونے والے واقعے کو اجتماعی طور پر بتانا چاہتا ہوں کہ کل ایک شخص بھی تم میں سے زندہ نہیں رہے گا، روز عاشور امام حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو یہ افتخار بھی دیا ایسی جزا دی کہ ہمیشہ تاریخ میں یہ جزا مثبت رہے گی، آخری لمحات ہیں، سب شہید ہوچکے ہیں۔ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے علاوہ جو بیمار تھے اور خیمے میں تھے اور باقی نہ بچا ، امام حسین علیہ السلام ہیں اور سامنے دشمنوں کا لشکر تنہا کھڑے ہیں دیکھتے ہیں کہ اصحاب کی لاشوں کے ٹکڑے جابجا گرم ریت پر پڑے ہیں۔ تب ایک جملہ کہا جس کا معنی یہ تھا:
“میں روئے زمین پر ان ٹکڑے ٹکڑے بدنوں کے علاوہ کسی کو زندہ نہیں دیکھ رہا۔
جو زیر خاک ہیں یا خاک و خون میں غلطاں ہیں زندہ ہیں جبکہ امام حسین علیہ السلام ابن حضرت علی علیہ السلام نصرت طلب کرتے ہیں آپ علیہ السلام کو مدد گار کی ضرورت ہے۔ ان سے جو خاک و خون میں غلطاں ہیں انہیں زندہ کہہ دیا، ان سے کمک چاہتے ہیں وہ زندہ کون ہیں؟ یہی ٹکڑے ٹکڑے بدن، فریاد کرتے ہیں:اے شجاع و با وفا اے میرے دلیر! اے بزرگ زادو! اس گہری نیند سے بیدار ہو جاؤ ،حرکت کرو مگر کیا تم نہیں جانتے کہ یہ پست و ذلیل لوگ آپ علیہ السلام کے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل بیت پر حملہ کرنا چاہتے ہیں آرام کرو تم اس کا حق رکھتے ہو میں جانتا ہوں کہ تمہارے مقدس سر تمہارے جسموں سے جدا کر دیے گئے ہیں۔
دو چیزوں نے چشمہ امام حسین علیہ السلام کو روشن رکھا:
(1) خاندان:
(2) یاران باوفا
اصحاب خاندان نے دیکھا دیا کی جہاد عاشقانہ کیسے کیا جاتا ہے۔
امام حسین علیہ السلام کے اصحاب اور اہل بیت علیہ السلام کا مقام:
شہداء، تمام صالح اور نیک افراد کے درمیان نمایاں ہوتے ہیں اور اصحاب امام حسین علیہ السلام تمام شہداء کے درمیان نمایاں ہیں آپ جانتے ہیں ایسا کیوں ہے؟ سابقہ مراحل میں جب آزمائش ہو چکی تھی جو اس قابل نہیں تھے چلے گئے جس اس لائق تھے باقی رہ گئے پھر ان لائق افراد کی آخری بار آزمائش کی گئی تو ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو واپسی کا ارادہ رکھتا ہو۔
شب عاشور ہے کیا؟
دو طرح لکھا گیا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ایک خیمہ ایسا تھا جہاں پانی کی بھری مشکیں جاتی تھیں، پہلے دن سے یہ کمرا مختص کر دیا گیا تھا اس خیمہ کو خیمہ “قرب الماء” یعنی ایسا خیمہ جہاں پانی ہو اپنے اصحاب کو جمع کیا، کیوں جمع کیا؟ میں یہ نہیں جانتی شاید اس لئے کہ یہ خیمہ اس شب سے پانی سے خالی تھا کیونکہ پانی کی کوئی مشک نہیں تھی اور اگر یہ جملہ ” عند قرب الماء” ہو یعنی غروب کے نزدیک انہیں جمع کیا۔ بہرحال اصحاب کو جمع کیا اور ایسا عالی اور پرجوش خطبہ دیا جو کل ہونے والے تمام اہم امور پر مشتمل تھا۔
9 محرم الحرام تھی عصر کے وقت وظیفہ معین ہو چکا تھا کہ کل کی فقط مہلت دی گئی ہے۔ جب یہ طے ہو چکا تب امام حسین علیہ السلام نے اصحاب کو جمع کیا اس کی راوی امام زین العابدین علیہ السلام ہیں جو خود وہاں موجود تھے فرماتے ہیں: جس خیمے میں امام حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو جمع کیا میں اس خیمے کے ساتھ والے خیمے میں تھا جس میں میں بیماری کی حالت میں آرام کر رہا تھا جب میرے والد گرامی نے اپنے اصحاب کو جمع کیا تو پہلے خدا کی حمد و ثنا کی اور کہا:
“میں خدا کی ثناء کرتا ہوں عالی ترین ثناء،ہمیشہ سپاسگزار تھا اور ہوں خواہ کیسے ہی حالات کیوں نہ ہوں۔ جو حق و حقیقت کے راستے پر قدم بڑھائے، کیسے ہی حالات کیوں نہ ہو اس کے لئے خیر ہے مرد حق ہر مشکل حالات میں اپنا وظیفہ صفحہ مشخص کر لیتا ہے وظیفہ کی انجام دہی میں جو بھی پیش آئے وہ شر نہیں ہوگا۔”
امام حسین علیہ السلام کے فرمانا چاہتے ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں راحت اور خوشی کے دن دیکھے ہیں ایسے دن بھی دیکھے ہیں جب میں زانوے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سوار ہوتا تھا ایسا وقت بھی گزارا ہے جب میں عالم اسلام کا عزیز ترین جوان تھا ، خدا کا شکر گزار ہوں کہ ایسے دن مجھے نصیب ہوئے آج کے دنوں کی سختی پر بھی خدا کا شکر ادا کرتا ہوں جو میرے لیے پیش آۓ، میں اسے شر نہیں سمجھتا خیر سمجھتا ہوں خدایا! میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ ہمیں قرآن کا علم عطا کیا ،یہ ہم ہی ہیں جو قرآن کو جس طرح کی وہ ہگ سمجھتے ہیں تیرا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمیں دینی بصیرت عطا کی کی، فقیہہ دین قرار دیا یعنی ہمیں توفیق دی کہ دین کو گہرائی تک سمجھتے ہیں روح اور باطن کو سمجھتے ہیں ، دین شناس بنایا۔
پھر کیا کیا؟ اس کے بعد تاریخی شہادت نامہ اصحاب اور اہل بیت کے لیے صادر کیا۔ فرمایا:
مجھ سے بہتر اور باوفا تر اصحاب کسی کو نہیں ملے آپ علیہ السلام یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میں حتیٰ کے ان اصحاب پر بھی اپنے اصحاب کو ترجیح دیتا ہوں جو روکاب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شہید ہوئے جو اصحاب میرے بابا حضرت علی علیہ السلام جو جمل و صفین نہروان میں شہید ہوئے ، کیونکہ تمہارے مخصوص حالات ان سے زیادہ اہم تر ہیں اپنے اہل بیت سے نیک تر اور بافضیلت تر مجھے کہیں نظر نہیں آتے اس وسیلے سے ان کے مقام کا اعتراف اور اقرار کیا اور ان کا شکریہ ادا کیا۔
پھر فرمایا ایھا الناس! میں سب کو بتا دینا چاہتا ہوں اصحاب کو بھی اور اپنے اہل بیت کو بھی کہ یہ قوم سوائے میرے کسی اور کے ساتھ کوئی مطلب نہیں رکھتی یہ فقط مجھے اپنی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں مجھے سے بیعت کے طلب گار ہیں کیونکہ فقط میں ان کے راستے میں مزاحم ہوں اور مجھے اپنے راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں۔ اگرچہ مجھے قتل کر دیں گے تمہیں البتہ کچھ نہیں کہیں گے۔ کیونکہ دشمن کو تمہارے ساتھ کوئی مطلب نہیں، تم لوگوں نے میری بیعت کی ہے۔ میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اپنی بیعت تم پر سے اٹھائے لیتا ہوں، پس تم دشمن کی وجہ سے جبری طور پر یہاں رہے ہو اور نہ ہی دوستی کی وجہ سے ، آزاد ہو جو جانا چاہے جا سکتا ہے۔
اصحاب کی طرف رخ کیا اور فرمایا: تم میں سے ہر ایک میرے خاندان کے ایک فرد کو ساتھ لے جائے کیونکہ امام حسین علیہ السلام کے پاس چھوٹے بچے تھے بزرگ تھے اور اس علاقے سے آشنا نہیں تھے راستوں سے واقف نہ تھے چاہتے تھے کہ سب مل کر نہ جائیں بلکہ ایک کا ہاتھ پکڑیں اور یہاں سے نکل جائیں۔
یہ وہ منظر ہے جہاں امام حسین علیہ السلام کے اصحاب کا مقام روشن ہوا، نہ دشمن کی طرف سے جبری طور پر رکاوٹ اور نہ ہی امام حسین علیہ السلام کی بیعت تھی امام حسین علیہ السلام نے سب کو آزاد کردیا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ایک ایک اصحاب و اہل بیت نے امام حسین علیہ السلام کے جواب میں پر شکوہ کلمات صادر ہوۓ۔
امام حسین علیہ السلام کی دعا:
امام حسین علیہ السلام نے روز عاشور چند اصحاب کے لیے یہ دعا کی:
1) ابو ثمامہ صائدی
2) علی اکبر علیہ السلام
3) سب کے لیے شب عاشور یہ دعا کی، جب یک زبان ہوکر سب نے کہا کہ ہم ہرگز آپ علیہ السلام سے جدا نہیں ہوں گے آپ علیہ السلام کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ فرمایا: جزا کم اللہ خیراء۔
Add Comment