سیرت اہل بیت علیھم السلام

دس محرم الحرام روز عاشورا کی نماز

 نماز ظہر کا وقت آ پہنچا:

ظہر کا وقت ہو چکا کا بیشتر اصحاب قبل از ظہر شہید ہوچکے تھے، یعنی قبل از ظہر عاشور اور اصحاب اور اہل بیت بقید حیات تھے، پہلے مرحلے میں جو اصحاب شہید ہوئے وہ جو دشمن کے مقابل صف بندی کیے ہوئے تھے، امام حسین علیہ السلام کی مختصر فوج کی تعداد بہتر تھی لیکن روح پرور شجاعت اور بے نظیر حماسہ کی بدالت امام حسین علیہ السلام نے شکست کا شائبہ بھی ظاہر نہ ہونے دیا ، بہتر افراد کے میمنہ اور میسرہ اور قلب مرکز قرار دیا ، سالار لشکر قرار دیا، انتہائی منظم اور مرتب دستہ تھا، جناب زہیر بن القین کو میمنہ کے اصحاب سپرد کیے، جناب حبیب ابن مظاہر کو میسرا اور پرچم  اپنے برادر رشید ابو الفضل العباس علیہ السلام کو عطا کیا ، اسی دن سے آپ کو پرچمداراور علمدار  جناب اب علمدار اور شیر حسین علیہ السلام کے نام سے مشہور ہوگئے ، اصحاب جنگ شروع کرنے کی اجازت طلب کرتے ہیں، آپ علیہ السلام نے فرمایا جب تک دشمن شروع نہ کرے ہم جنگ کا آغاز نہیں کریں گے۔

امام حسین علیہ السلام کی آخری نماز کی عظمت؛

ابوالصائد نامی شخص امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا ابن رسول اللہ علیہ السلام! وقت نماز ہے ہماری آرزو ہے کہ اپنی زندگی کی آخری نماز آپ علیہ السلام کی اقتداء میں ادا کریں۔ دیکھیں یہ کیسی نماز تھی! یہ وہ نماز تھی کہ جس میں تیز بارش کی مانند برسے ،لیکن امام حسین علیہ السلام اور اصحاب حالت نماز میں غرق تھے اللہ اکبر بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمدللہ رب العالمین، ایک فرنگی کہتا ہے کہ امام حسین ابن علی علیہ السلام ہم نے کیسی پرشکوہ نماز پڑھی کہ ایسی نماز کی دنیا میں نظیر نہیں ملتی اپنی مقدس پیشانی کو گرم ریت پر رکھ دیا اور کہا: بسم اللہ و باللہ و علی ملۃ رسول اللہ۔

امام حسین علیہ السلام اور نماز خوف:

روز عاشور کے بارے میں آپ علیہ السلام نے سن رکھا ہے کہ اکثریت بعد از ظہر شہید ہوئے ، یعنی قبل از ظہر عاشورا اصحاب و اہل بیت اور امام حسین علیہ السلام سب زندہ تھے خود امام حسین علیہ السلام سب سے آخر پہ بعد از ظہر شہید ہوئے فقط امام حسین علیہ السلام کے تیس اصحاب قبل از ظہر دشمن کی تیر اندازی سے شہید ہوئے باقی سب بعد از ظہر شہید ہوئے۔
امام حسین علیہ السلام کے اصحاب میں سے ایک متوجہ ہوا کہ اب ظہر کا وقت ہے اور عرض کی اے امام حسین علیہ السلام! وقت نماز ہے ہمارا دل چاہتا ہے کہ آخری نماز آپ علیہ السلام کی اقتدا میں پڑھ لیں۔ امام حسین علیہ السلام نے تصدیق کی آیا وقت نماز ہو چکا ہے یا نہیں کہتے ہیں کہ اس وقت یہ جملہ فرمایا :
ذکرت الصلواۃ یا: ذکرت الصلواۃ
اگر ذکرت ہو، یعنی نماز تجھے یاد آگئی، اگر ذکرت ہو تو یہ معنی ہوگا کہ نماز ہمیں یاد کرائی ہے۔
ذکرت الصلواۃ جعلک اللہ من المصلین
نماز کو یاد کیا ہے، خدا تجھے نماز گزاروں میں سے قرار دے۔
ایک ایسے مرد کو جو جان ہتھیلی پر رکھے ہوۓ ہیں، ایسے مجاہد کو امام حسین علیہ السلام نے یہ دعا دی ہے کہ خدا تجھے نماز گزاروں میں سے قرار دے۔
دیکھیے نماز گزار کا واقعا کیا مقام ہے؟ فرمایا: ہاں نماز پڑھیں، میدان جنگ میں نماز پڑھیں گے ، جیسے فقہی اصطلاح میں ” نماز خوف” کا نام دیا گیا۔
نماز خوف مسافر کی نماز کی مانند دو رکعت ہے نہ کہ چار رکعت یعنی انسان اگر چہ اپنے وطن میں بھی ہو تب بھی نماز دو رکعت پڑھے گا کیوں کہ یہاں کرنا ممکن نہیں، کیونکہ اگر سب نماز کے لیے کھڑے ہو جائیں تو دفاعی لائن درہم برہم ہو کر رہ جائے گی ، لہذا فوج کا نصف دستہ دشمن کے مقابلے میں اور بقیہ امام جماعت کی اقتداء کریں گے امام جماعت جب ایک جماعت رکعت پڑھ لے گا تو اتنا صبر کرے کہ وہ اپنی دوسری رکعت پڑھ لے گا تو اتنا صبر کرے کہ وہ اپنی رکعت پڑھ لیں اس کے بعد وہ دستہ چلا جائے اور دوسرا دستہ آ جائے نماز کی اقتداء کرے، جب کہ امام جماعت اسی طرح بیٹھا رہے یا کھڑا رہے۔
یہ دستہ اپنی پہلی رکعت امام جماعت کی دوسری رکعت کے ساتھ ادا کرے گا۔ 
امام حسین علیہ السلام نے اس طرح کی نماز خوف پڑھی، لیکن امام حسین علیہ السلام کی حالت ایک خاص حالت تھی کیونکہ دشمن سے زیادہ دور نہیں تھے لہذا وہ لوگ جو دفاع کرنا چاہتے تھے امام حسین علیہ السلام کے بالکل نزدیک کھڑے تھے اور بے حیاء اور بے شرم دشمن میں اس لمحے بھی صبر سے کام نہ لیا، جبکہ امام حسین علیہ السلام نماز میں مشغول تھے، دشمن نے تیر اندازی شروع کر دی، دو طرح کی تیر اندازی ، ایک تیر اندازی، ایک تیر اندازی زبان سے کر رہے تھے، ایک پکار رہا تھا حسین علیہ السلام! یہ نماز نہ پڑھو، تیری نماز کا کوئی فائدہ نہیں، تم نے یزید سے بغاوت کی ہے، تم باغی ہو، لہذا تمہاری نماز قبول نہیں!
دوسرے تیر کمان سے نکل رہے تھے تھے ، دو اصحاب ابا عبداللہ نے اپنے اپنے آپ کو مولا امام حسین علیہ السلام کے سپرد قرار دے رکھا تھا ان میں سے ایک سعید بن عبداللہ حنفی اس طرح گرے کہ جیسے ہی امام حسین علیہ السلام نے نماز تمام کی، تو ان کی جان نکلنے کے قریب تھی، آقا علیہ السلام خود اس کے سرہانے پر پہنچے جب اس کی سرہانے پہنچے اس نے بڑا عجیب جملہ کہا ہاں عرض کیا: یا ابا عبداللہ ! اوقیت، آیا میں نے حق ادا کر دیا؟؟
گویا ابھی اس فکر میں تھا کہ امام حسین علیہ السلام کا حق اس قدر زیادہ ہے کہ اس قدر فدا کاری بھی کافی نہیں، یہ تھی کربلا کے صحرا میں امام حسین علیہ السلام کی نماز۔

امام حسین علیہ السلام کے دل کو شاد کر دیا:

ابو ثمامہ صائدی نے جو آخری نماز کی خواہش کا اظہار کیا اس نے امام حسین علیہ السلام کے دل کو شاد کر دیا کہ آپ علیہ السلام نے دعا کی اس سے بالاتر سعید بن عبداللہ حنفی کی فدا کاری تھی جب انہوں نے یہ جملہ کہا: اوقیت

گرم آگ پر سجدہ:

امام حسین علیہ السلام نے نماز میں تکبیر بلند کی، ذکر کہا: سبحان اللہ اللہ کہا، بحول اللہ وقوته اقوم و اقعد
رکوع اور سجود کیا۔ دو تین گھنٹے کے بعد ایک اور نماز پیش آئی، ایک اور سجدہ کرنا پڑا، لیکن اس ذکر کو ایک اور مشکل میں ادا کیا، امام حسین علیہ السلام کا رکوع اس وقت ہوا جب ایک تیر آپ علیہ السلام کے سینے مقدس میں پیوست ہو گیا ،امام حسین علیہ السلام مجبور ہو گئے کہ اس تیر کو پشت کی جانب سے کھینچ کر نکالیں، کیا آپ جانتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کا سجدہ کس شکل میں ادا ہوا؟ یہ سجدہ پیشانی سے نہیں کیا ، کیونکہ امام حسین علیہ السلام مجبوراً گھوڑے سے زمین پر آ رہے، تب آپ علیہ السلام نے اپنا دائیاں رخسار کربلا کی گرم ریت پر رکھ دیا، تب امام حسین علیہ السلام کا ذکر یہ تھا:
بسم اللہ و باللہ و علی ملۃ رسول اللہ

اشھد انک قد اقمت الصلوۃ:

ہمیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اسلام کی نظر سے جاننا چاہیے یہ کیسا اصول ہے؟ یہ کیا ہے کہ جس کی قدر و اہمیت اور اصالت اتنی ہے کہ ایک ایسا شخص جو امام حسین علیہ السلام جیسے شخص کو اپنی راہ میں جان دینے پر تیار کر دیتی ہے، اپنا خون بہا دے، اپنے عزیزوں کا خون بہا دے، ایسا حادثہ رونما کر دے کہ جس کی نظیر نہیں ملتی، اب ہم تیرہ سو سال بعد امام حسین علیہ السلام کے سامنے کھڑے ہوکر یہ گواہی دیں۔
اشھد انک قد اقمت الصلوۃ واتیت الزکاۃ و امرت بالمعروف
و نھیت عن المنکر و جاھدت فی اللہ حق جھادہ حتیٰ آتاک الیقین
اس شہادت اور گواہی کے مفہوم کو درست سمجھنے کی کوشش کیجئے یے ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے نماز قائم کی کی آپ نے زکوٰۃ کو تمام مراتب کے ساتھ ادا کر دیا، وامرت باالمعروف ونھیت عن المنکر آپ علیہ السلام نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کیا، جاھدت فی اللہ حق جھادہ اور بھی اس قدر کوشش کی جو سزا وار ہے ایک بشر راہ حق میں خود کو پیش کر دے۔

نماز و جہاد کی راہ میں جہاد:

بزرگ اور بزرگواری میں یہ فرق ہے فارسی میں بزرگ کا معنی بڑا عظیم شریف محترم اور بالغ ہے جبکہ بزرگواری کا معنی فراخدلی اور بزرگی کا معنی عظمت اور بڑائی ہے۔
البتہ فراخ دل بھی عظیم ہوتے ہیں لیکن سب عظیم لوگ فراغ دل نہیں ہوتے سب فراخدل عظیم ہوتے ہیں اسی لیے جب ہم ان کے مقابلے میں کھڑے ہوتے ہیں تو ان کی بزرگواری کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں ان کی بزرگواری کی ہی بات کرتے ہیں نہ کہ بزرگی کی جو کہ بزرگواری سے جدا ہے۔
اشھد انک قد اقمت الصلوۃ واتیت الزکاۃ و امرت بالمعروف و نہی عن المنکر
اگر ہم نادر شاہ کے سامنے ہوں تو کیا کہیں گے؟ ہمیں اس کی بزرگی کی بات کریں گے کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ تم ہند گئے اور اسے تباہ کر دیا اور ہمارے لئے الاس ہمارے لئے لاۓ کوہ نور ہیرا لے آۓ، لیکن امام حسین علیہ السلام کے لیے کہیں گے ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے زکوٰۃ دی لیکن دولت جمع نہیں کی اور نہ ہی ہمارے لیے دولت لائے، آپ علیہ السلام نے اچھائی کا حکم دیا اور برائی سے منع فرمایا آپ علیہ السلام نے نماز جو کی خدا اور بندے کے درمیان رابطے کا ذرہ ہے اسے زندہ کر دیا آپ علیہ السلام نے خدا کے راستے جدوجہد کی نہ کہ اپنی ذاتی خواہشات کے لیے محنت کی، نہ ہی جلوہ طلبی کی کوشش کی آپ علیہ السلام کے ایک بڑے جاہ طلب نہیں تھے آپ علیہ السلام ایک بڑے انتقام جو نہیں تھے آپ علیہ السلام ایک بڑے دولت کے پجاری نہیں تھے آپ علیہ السلام کینہ پرور نہیں تھے آپ علیہ السلام تو خدا کے راستے کے بڑے مجاہد تھے آپ علیہ السلام نے اپنی حیوانی خودی کے بجائے اس خودی کو بیدار کیا جس کا خدارشتہ ہے، اشھد انک جاھدت فی اللہ حق جھادہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے جدوجہد کی جہاد کیا لیکن جہاد شہوت حکومت یا پوسٹ کے لیے نہیں تھا بلکہ یہ حق و حقیقت کے لئے تھا۔

خدا سے ظاہر تر اور کون ہے؟

امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں:
آیکون لغیرک من الظھور مالیس لک
آیا تو اس سے زیادہ کوئی زہر تر ہے کہ میں تیرے غیر کو تیرے لئے بطور دلیل پیش کروں؟

تجربہ کر لیں:

امام حسین علیہ السلام سے یہ جملہ نقل ہوا ہے کہ آپ علیہ السلام شب عاشور فرمایا: میں اپنے اصحاب سے بہتر اور صحابی کو نہیں جانتا۔ فیض مرحوم کہتے ہیں مجھے یقین نہیں تھا کہ ایسی چیز امام حسین علیہ السلام نے فرمائی ہو۔
ان سے کہا گیا: کیوں؟
تو فیض مرحوم نے کہا: ان اصحاب نے کون سا ایسا کام کیا تھا کہ امام حسین علیہ السلام ان کے بارے میں یہ کہیں کہ اور اصحاب سے بالاتر کوئی نہیں۔ جنہوں نے امام حسین علیہ السلام کو قتل کیا بہت برے لوگ تھے ، جن لوگوں نے امام حسین علیہ السلام کی نصرت کی انہوں نے کوئی بڑا کام نہیں کیا ،کوئی بھی مسلمان ان کے ساتھ ہوتا اور اس سے یہ کہا جاتا ہے فرزند پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام حسین علیہ السلام کے دشمن کے نرغے تنہا گئے ہیں، مجبوراً وہ بھی کھڑا ہو جاتا، ایک شب اسی عالم میں خواب دیکھا کہ کربلا کا صحرا ہے امام حسین بہتر افراد کے ساتھ ہیں دوسری طرف تیس ہزار کا لشکر ہے وہی منظر نظر آیا کہ نماز ظہر کا وقت ہے اور سب نماز پڑھنا چاہتے ہیں ،حضرت امام حسین علیہ السلام نے اسی عالم مرحوم فیض سے فرمایا: تم آگے کھڑے ہو جاؤ تاکہ ہم نماز پڑھ لیں جس طرح سعید بن عبداللہ حنفی اور ایک دو دوسرے اصحاب نے اپنے آپ کو امام حسین علیہ السلام کے سپرد قرار دے رکھا تھا دشمن تیر اندازی کر رہا تھا یہ عالم آگے کھڑے ہو گئے دشمن کی طرف سے پہلا تیر آیا جب انہوں نے دیکھا کہ یہ تیر سیدھا ان کی طرف آرہا ہے تو وہ نیچے بیٹھ گئے اور یہ تیر سیدھا امام حسین علیہ السلام کے بدن میں پیوست ہو گیا۔ اس عالم نے خواب میں کہا: استغفر اللہ ربی و اتوب الیه
یہ تو بہت برا ہوا اب ایسا نہیں کروں گا دوسری مرتبہ جب پیر قریب آیا دوسری مرتبہ جب تیر پھر خم ہو گیا۔ ایسا چند مرتبہ ہوا اور بے اختیار خم ہوتا رہا اسی دوران امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: انی لا اعلم اصحایا با خیرا ولا افضل من اصحابی
میں اپنے اصحاب سے بہتر کسی اور کے اصحاب کو نہیں جانتا یعنی تم نے یہ سوچ رکھا ہے کہ جو کتابیں پڑھ لے وہ مجاہد بن جاتا ہے؟ یہ ایک حقیقت ہے۔
من لمی یغز و لم یحدث بغزو مات علی شعبه من النفاق
اگر عملی طور پر جہاد کی تربیت نہ لے یا کم از کم اس کی فکر بھی نہ کرتا ہوں کہ ایسا کرے گا تو اس کی روح میں دوروئی ہے یعنی جب جہاد کا موقع آئے گا تو ادھر ادھر ہو جائے گا۔