عجیب آزمائش:
ملائکہ نے بشر کی سرشت میں جو بھی بدی دیکھی وہ سب کربلا میں ظاہر ہو گئیں نیز جو خدا نے فرمایا کہ تم نے تصویر کا ایک رخ دیکھا ہے بشر کے نورانی اور نورانی اور پر فضیلت صفحے کو ابھی نہیں دیکھا ، تمام انسانی فضیلتیں و نورانیت بھی کربلا میں ظاہر ہو گئی۔ ایسی آزمائش واقعا عجیب ہے۔
اخلاقیات کی نمائش:
اخلاق کربلا کو دیکھتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ ایک اخلاق اسلامی کی نمائش ہو رہی ہے۔ مختصر طور پر تین اخلاقی اقدار کا اہم ذکر کرتے ہیں، مروت ، ایثار اور وفا، جو اس واقعہ میں موجود ہے، گو اس کا معنی مردانگی ہے، لیکن ایک خاص مفہوم ہے مولا رومی نے اسے بہتر انداز میں مجسم کیا ہے جہاں وہ امام علی علیہ السلام اور عمر بن عبدود کے مبارزے کی داستان نقل کرتا ہے کہ امام علی علیہ السلام عمرو کے سینے پر سوار ہو گئے سب تب اس نے آب دہان آپ کے چہرے پر پھینکا حضرت علی علیہ السلام فورا اسے چھوڑ دیتے ہیں اور کچھ دیر بعد دوبارہ پلٹتے ہیں یہاں سے ملا رومی مدح سرائی شروع کرتا ہے ایک شعر جو امام علی علیہ السلام کے بارے میں اس طرح ہے:
در شجاعت شیر ربا نیستی
در مروت خود که دائد کیستی
شجاعت کے لحاظ سے تم شیر خدا ہو لیکن مروت میں کوئی بھی تمہاری توصیف بیان نہیں کر سکتا کہ کس قدر جوانمرد اور آقا ہو۔
مروت یہ ہے کہ انسان اپنے دشمن سے بھی محبت کرے حافظ شاعر فارسی زبان میں کہتا ہے:
آسائش دو گیتی، تفسیر این دو حرف است
با دوستانِ مروت با دشمنان مدارا
لیکن اسلام کا فرمان اس سے بھی بالاتر ہے اگر اسلام کے نزدیک اسے بیان کیا جائے تو یوں کہا جائے گا دوستوں کے ساتھ مروت اور دشمنوں کے ساتھ بھی مروت و مردانگی، جب امام حسین علیہ السلام نے محسوس کیا کہ دشمن تشنہ لب ہے تو اسے پانی دیتے ہیں، اس کا معنی مروت ہے یہ شجاع سے بھی بالاتر ہے جس طرح امام علی علیہ السلام نے اسے انجام دیا۔
صفات حسینی کی ایک دوسرے پر سبقت لینے کا دن:
بہت معروف مصنف عباس محمود عقاد، امام حسین علیہ السلام کے بارے میں یہ جملہ کہتا ہے: روز عاشور ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ گویا حسینی صفات کے درمیان مقابلہ ہو رہا ہے یعنی امام حسین علیہ السلام کی فضیلتیں ایک دوسرے سے برسرپیکار تھیں۔ جیسے صبر امام حسین علیہ السلام تمام صفات سے آگے جانا چاہتا ہو، رضائے امام حسین علیہ السلام جو رضائے خدا ہے، صبر سے آگے جانا چاہتا ہے، اخلاص حسین علیہ السلام ان سب کو پیچھے چھوڑنا چاہتا ہے، شجاعت امام حسین علیہ السلام تمام صفات سے سبقت حاصل کرنے کے درپے ہو۔
صفات اسلامی کا ظہور:
جو صفات امام حسین علیہ السلام سے روز عاشور ظہور پذیر ہوئی وہ یہ ہیں:
1- بدنی شجاعت
2- قوت قلب اور شجاعت روحی
3- خدا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلام پر کامل ایمان
4- عجیب صبر و تحمل
5- رضا و تسلیم
6- اعتدال کی حفاظت، ہیجان برپا کرنے سے پرہیز بے معنی گفتگو سے پرہیز نہ خود اور نہ ہی اصحاب نے ایسا کیا۔
7- کرم و بزرگواری اور بخشش
8- فدا کاری اور فدا کرنا۔
عظیم حماسی نمائش:
یہ حادثہ گویا ایک ایسی نمائش گاہ تھی جس میں حماسہ، المیہ ، وعظ، عشق الہی، مساوات اسلامی اور انسانی جذبات اپنے کمال پر، ان مختلف کرداروں کے ذریعے جو سب کے لئے نمونہ عمل ہیں۔ بوڑھے، جوان ، عورت، مرد، آزاد شدہ، بالغ و بچے جو بھی آیا اس نے اسلام کے تمام پہلوؤں کی نشاندہی کردی۔ توحید و عرفان، عشق الٰہی، تسلیم و رضا حق کے ساتھ محبت خدا کے ساتھ محبت ، پاکبازی، اسی حالت میں تمام اخلاقی پہلو متحرک کر دیئے۔ محروموں سے ہمدردی، مساوات و برابری، عالی ترین اخلاقی جذبات کی نمائش گاہ بن گئی۔
مروت اور انسانیت کے ذریعے تبلیغ:
تبلیغات کی ٹیکنیک کے طور پر امام حسین علیہ السلام نے مروت و انسانیت کو تمام مواقع پر استعمال کیا، دس محرم تک راستے میں دشمن کو سیراب کرنے سے لیکر جنگ کا آغاز نہ ہونے تک۔
اخلاقی اصولوں کی جنگ میں رعایت:
امام حسین علیہ السلام اور ہر جب نینوا پہنچ گئے اس کے بعد عبیداللہ کا خط پہنچا۔ اما بعد فحمجع بالحسین حتیٰ یلغک کتابی و یقدم علیک رسولی، فلا تنزله الا بالعراء فی غیر حسن و علی غیر ماء
زھیر نے مشورہ دیا کہ ان سے ابھی جنگ کر لیں۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: ” اکرہ ان ایداھم بالقتال”
امام حسین علیہ السلام کا ایک بنیادی اصول جنگ کا عدم آغاز تھا۔
کربلا ، ایثار کی نمائش گاہ:
اب میں ایثار کے بارے میں گفتگو کرتی ہوں، ایک اور اخلاقی عنصر جو اس حادثے میں موجود رہا ، یہ کربلا کیسی ایثار کی نمائش تھی! آپ غور کریں کہ کیا ایثار کی مجسم صورت جناب ابو الفضل العباس علیہ السلام سے بہتر تلاش کر پائیں گے؟
ایثار کی انتہا:
عمرو بن قرظہ بن کعب انصاری جو مدینہ کی اولاد میں سے تھے ، یہ ظاہر ان لوگوں میں سے تھا۔ جب امام حسین علیہ السلام نماز ادا کر رہے تھے اور اس صحابی نے اپنے آپ کو سپر قرار رکھا تھا، اس شخص کے بدن پر اس قدر تیز پیوست ہوۓ کہ زخمی ہو کر آ گیا ، وقت آخر تھا ، امام حسین علیہ السلام خود اس کی سرھانے پہنچے ، یہ شخص اس شک میں مبتلا تھا کہ شاید اس نے اپنے وظیفہ پر عمل کیا ہے یا نہیں تو کہتا ہے:
اوفیت یا ابا عبداللہ
” آیا میں نے وفا کی یا نہیں؟”
امام حسین علیہ السلام کی محبت کا انداز:
روز عاشور امام حسن نے کس طرح لوگوں کو دین کی دعوت دی، نصیحت کی، مواعظ سے لوگوں کی توجہ اسلام کی طرف کرنے کی کوشش کرتے رہے ، آپ علیہ السلام کے اصحاب کتنی محنت کرتے رہے۔ حنظلۃ بن اسعد الشبامی نے کتنی نصیحتیں کیں، زہیر بن قین نے کس طرح پندو نصائح سے اس ذمہ داری کو ادا کیا، امام حسین علیہ السلام ان کی بدبختی سے رنجیدہ تھے، آپ علیہ السلام کی کوشش یہ رہی کہ کوئی بھی اس حالت میں نہ رہے ، لوگوں کے ساتھ ضد نہیں بلکہ ہر زبان سے ان کو آگاہ کرتے رہے کہ ایک مرد بھی ادھر سے کم ہو جائے کافی ہے، اپنی جد کا عملی نمونہ پیش کرتے رہے۔
” لقد جائکم رسول من انفسکم عزیز علیه ماعنتم، حریص علیکم بالمومنین رؤف و رحیم”
کیا تم جانتے ہوکہ عزیز علیہ ماعنتم کا کیا معنی ہے؟
یعنی تمہاری بدبختی اس پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گراں یعنی دشمنان پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر گراں تھی ، وہ خود تو اسے نہیں سمجھتے تھے، یہی ان کی بدبختی امام حسین علیہ السلام پر گراں تھی، کبھی شتر پر سوار ہوتے ہیں اور چلتے جاتے ہیں پھر واپس آ جاتے ہیں، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمامہ سر پر رکھتے ہیں، لباس زیب تن کرتے ہیں، گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں اور لشکر کی طرف جاتے ہیں تاکہ ان شقی القب افراد میں سے لوگوں کو کم کریں، یہاں سے امام حسین علیہ السلام کا پتا چلتا ہے کہ آپ علیہ السلام سراپا محبت تھے ، سراپا دوست تھے حتیٰ کہ اپنے دوست رکھتے تھے۔
Add Comment