شکوک و شبہات کے جواب

امام جعفر صادق علیہ السلام کا روشنی کے بارے میں نظریہ

 امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی اختراعات میں سے ایک روشنی کے بارے میں آپ علیہ السلام کا نظریہ ہے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ نور دیگر اشیاء کی طرف سے ہماری آنکھ کی جانب آتا ہے اور اس میں سے صرف ایک ہی حصہ ہماری آنکھ میں چمکتا ہے جس کی وجہ سے ہم دور کی چیزوں کو بخوبی نہیں دیکھ سکتے اگر وہ تمام نور جو کسی دور کی چیز سے ہماری آنکھ کی طرف آتا ہے دیدے کی اندر پہنچ جائے تو ہمیں دور کی چیز قریب نظر آئے گی اگر کوئی ایسا آلہ بنایا جا سکے جس کے ذریعے دور کی چیز سے آنے والا تمام نور آنکھ کے اندر چمکا دیا جائے تو صحرا کے اندر جو اونٹ تین ہزار گز کے فاصلے پر چر رہا ہے اسے ہم ساٹھ گز کے فاصلے پر دیکھیں گے یعنی وہ ہمیں 50 گناہ قریب نظر آئے گا۔

یہ نظریہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے شاگردوں کے ذریعے ہر طرف پھیل گیا اور جب صلیبی جنگوں کے بعد مشرق و یورپ کے درمیان تعلقات قائم ہوئے تو یورپ میں منتقل ہو گیا اور وہاں کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جانے لگا اس نظریے کا ایک مشہور مدرس انگلینڈ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کا استاد ڈاکٹر راجر بیکن بھی تھا۔ نور کے بارے میں اس کی تھیوری بھی وہی ہے جو امام جعفر صادق علیہ السلام نے بتائی تھی۔اور آپ علیہ السلام کی مانند اس نے بھی یہی کہا ہے کہ اگر ہم کوئی ایسا آلہ بنائیں جو دور کی تمام اشیاء کا نور ہماری آنکھوں میں پہنچا دے تو ہم ان اشیاء کو پچاس گناہ زیادہ قریب دیکھیں گے۔

اس نظریے کی بنا پر 1608ء میں لپرشی فلا مانڈی نے پہلی دوربین ایجاد کی اور اسی نمونے کو سامنے رکھ کر مشہور سائنس دان گلیلیو اپنی فلکی دور بین بنانے میں کامیاب ہوا۔ اسی نے اپنی اس دور بین سے 1610ء کے پہلے مہینے یعنی 7 جنوری کی شب میں کام لیا اور آسمانی ستاروں کا مشاہدہ کیا۔

تاریخ میں اس کے موجد لپرشی اور گلیلیو کے دوربین بنانے کے درمیان دو سال سے زیادہ کا فاصلہ نہیں تھا اور چونکہ گلیلیو نے 1610ء کے پہلے ہی مہینے میں اپنی درو بین سے کام لینا شروع کر دیا تھا لہذا کہا جا سکتا ہے کہ یہ دو فاصلہ دو سال سے بھی کم ہے اور اس طرح بعید نہیں کہ فلکی دوربین بنانے کا خیال ایک ہی موقع پر دونوں کے ذہن میں آیا ہو۔

البتہ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ گلیلیو نے لپرشی کی دوربین سے رہنمائی حاصل کی اور جو نقص اس میں باقی رہ گیا تھا اسے اس زمانے کے ٹیکنکی امکانات کی حدود میں رہ کر رفع کر کے اس سے 7 جنوری 1610ء کی شب میں آسمان کا نظارہ شروع کیا۔

گلیلیو ملک پاٹا ویوم کی مشہور یونیورسٹی کا تربیت یافتہ تھا جو بعد میں وینس سے موسوم ہوئی آج اس کی کرسی کو وینس کہتے ہیں اور اسے مشرقی پاٹا ویوم میں بندقیہ کہا جاتا ہے۔ گلیلیو ریاضی کا استاد بن گیا۔ جب اس نے پہلی شب اپنی دوربین کا رخ چاند کی طرف کیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ زمین کی طرح چاند پر بھی پہاڑوں کا ایک سلسلہ موجود ہے اس نے دیکھا کہ یہ پہاڑ، چاند کے صحراؤں پر سایہ ڈال رہے ہیں۔ چنانچہ اس کی سمجھ میں آیا کہ دنیا صرف زمین ہی تک محدود نہیں بلکہ چاند بھی ایک دنیا ہے۔

اگر نور کی تھیوری امام جعفر صادق علیہ السلام کی طرف سے پیش نہیں گئی ہوتی تو کیا لپرشی فلا مانڈی اور گلیلیو فلکی دور بین بنا سکتے تھے؟ گلیلیو نظام شمسی کے اجرام کا مطالعہ کر سکتا تھا؟ اور اپنے مشاہدے سے کوپر نیک اور کپلر کے اس نظریئے کی تائید کر سکتا تھا کہ نظام شمسی کے اجرام جن میں زمین بھی شامل ہے سورج کے گرد گھوم رہے ہیں۔

گلیلیو کی طرف سے دور بین کی ایجاد نے لوگوں کو اس قدر متاثر کیا کہ وینس کے ممبران پارلیمنٹ سے صدرجمہوریہ تک سبھی اس کے ذریعے ستاروں کا معائنہ کرنے کے شائق بن گئے  گلیلیو اپنی دوربین کو پادو سے جہاں مشہور یونیورسٹی تھی اور ہے ،وینس لے گیا اور ایک کلیسا کے برج پر نصب کیا عمر رسیدہ سینیٹرز بھی سہارا دے کر اس برج تک پہنچائے گئے تاکہ وہاں سے اس دوربین کے ذریعے چاند اور ستاروں کو دیکھ سکیں۔

جب گلیلیو سے پوچھا جاتا تھا کہ اس کی دوربین اجرام فلکی کو اس قدر قریب کس طرح کر دیتی ہے کہ اس سے چاند کے پہاڑ بھی دیکھے جاسکتے ہیں؟ تو وہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی پیش کی ہوئی تھیوری دہراتا تھا اور کہتا تھا کہ یہ دوربین اجرام سماوی کے اس سارے نور کو جو آنکھوں کی طرف آتا ہے جمع کر لیتی ہے اور اس کے نتیجے میں جو چیز تین ہزار قدم کے فاصلے پر ہو اس قدر نزدیک آتی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ جیسے 60 قدم کے فاصلے پر ہے۔

جس وقت گلیلیو نے 1610ء میں پہلی بار اپنی فلکی دوربین کا رخ آسمان کی طرف کیا تو ڈیکارٹ چودہ سال کا تھا اور وہ کوپر نیک، کپلر اور  گلیلیو کے بغیر خود کو جہالت کے اندھیرے سے نکال کر عہد جدید کی علمی تحقیق کی بنیاد استوار نہیں کر سکتا تھا۔

علوم زنجیر کے حلقوں کی مانند ہیں لیکن ایک حلقہ دوسرے حلقے سے ملحق ہوتا ہے اور ایک علم سے دوسرا علم دریافت ہوتا ہے۔ سورج کے گرد سیارات اور زمین کی حرکت کے موضوع پر نوع بشر کی جہالت نے جس کا باعث ارسطو بنا 18 صدیوں تک علمی فضا میں انسان کے پر پرواز کو معطل رکھا اور بزرگ استاد و معلم ارسطو کا اثر و نفوذ اتنا زیادہ تھا کہ کوئی شخص اس کے نظریئے کو باطل کہنے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا۔