سیرت اہل بیت علیھم السلام

امربالمعروف ونہی عن المنکر کا احیاء امام حسین علیہ السلام کی نظر میں

 (1) امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی عظت:

جب امام حسین علیہ السلام مدینہ منورہ سے نکلے تو اعلان کر دیا کیونکہ مجھ سے بیعت چاہتے ہیں لیکن میں اسے قبول نہیں کرتا بلکہ اس کے خلاف قیام کروں گا یہاں تک کہ اگر بیعت کے لئے نہ بھی کہیں تب بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا وظیفہ انجام دینے کے لئے قیام کروں گا اہل کوفہ کی دعوت قیام کا باعث نہیں ہے بلکہ اہل کوفہ کی دعوت دو ماہ بعد ملی۔ پہلے ہی دن اہل کوفہ نے دعوت نہیں دی تھی دنیا اسلام منکرات سے پر ہو چکی ہے پس اپنا دینی فریضہ، شرعی مسئولیت اور اپنی ذمہ داری کو انجام دوں گا۔
پہلے عامل میں امام حسین علیہ السلام دفاع کر رہے ہیں۔ آپ علیہ السلام سے بیعت طلب کرتے ہیں لیکن آپ علیہ السلام انکار کر دیتے ہیں اور اپنا دفاع کرتے ہیں دوسرا عامل دعوت اہل کوفہ، ایسا ہے کہ اس میں امام حسین علیہ السلام تعاون کے لیے تیار ہیں کیونکہ اہل کوفہ نے آپ علیہ السلام نے آپ علیہ السلام سے مدد طلب کی ہے لہٰذا مثبت جواب دیا، تیسرا عامل ایسا ہے کہ امام حسین علیہ السلام مقابلے کے لیے تیار ہوگئے یہاں آپ علیہ السلام نے حکومت وقت کا گہراؤ کیا، اس عامل کی مناسبت سے آپ علیہ السلام ایک انقلابی مرد ہیں اور انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں۔

(2) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت:

تینوں عوامل یعنی دعوت اہل کوفہ کے جس کی ماہیت تعاون ہے عامل بیت جس کی ماہیت دفاع ہے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی جس کی ماہیت مزاحمت اور چڑھائی کرنا ہے۔ کون سا عامل ان تینوں میں سے سب سے زیادہ لائق اہمیت ہے البتہ تینوں اہمیت کے لحاظ سے ایک ہی درجہ پر نہیں۔ ہر عامل ایک معین درجہ کے لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے جس قدر اس عامل کی اہمیت ہے اسی قدر اس نے اس تحریک میں مدد کی ہے، اہل کوفہ کی دعوت، لوگوں کی آمادگی، جو اس کام کے لیے معاون تھے اس کے لیے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اپنی آمادگی کا اظہار کردیا اس کی بھی اہمیت بہت زیادہ ہے لیکن اس سے زیادہ ، بیعت کا تقاضا اور امام حسین علیہ السلام کا انکار کر دینا بلکہ قتل ہونے کے لئے آمادہ ہو جانا ہے لیکن بیعت نہ کرنا بھی نہایت اہم ہے۔ تیسرا عامل امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے جو اور بھی زیادہ اہم ہے لہذا تیسرے عامل نے اس تحریک کو زیادہ اہمیت بنایا ہے۔

(3) امام حسین علیہ السلام کا واضح ترین ہدف:

امام حسین علیہ السلام نے معاویہ کو اس کی زندگی کے آخری ایام میں یہ خط لکھا آپ علیہ السلام نے اس کی ملامت کی اور یہ جملہ لکھا ہے معاویہ بن ابی سفیان! خدا کی قسم ، میں اب تمہارے ساتھ نبرد آزمائی نہیں کرتا ،ڈرتا ہوں کہ کہیں بارگاہ الہی میں مقصر نہ بن جاؤں، کہنا یہ چاہتے ہیں کہ یہ خیال نہ کرو کہ امام حسین علیہ السلام آج خاموش ہیں اس لیے قیام نہیں کریں گے میں ایک مناسب موقع کی تلاش میں ہوں تاکہ میرا قیام مؤثر ثابت ہو اور جس ہدف تک میں پہنچنا چاہتا ہوں اور کوشش کر رہا ہوں آگے بڑھوں پہلے ہی دن جب آپ علیہ السلام مکہ مکرمہ سے باہر آئے تب محمد بن حنیفہ سے وصیت کرتے ہوئے فرمایا:
“میں شر پیدا کرنے، وحشت پھیلانے، فساد برپا کرنے اور ظلم کرنے کے لیے نہیں نکلا ہوں بلکہ صرف اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لیے نکل رہا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ لوگوں کو نیک کام کرنے کا مشورہ دوں اور برائیوں سے منع کروں۔”

(4) دنیا کے لوگ جان لیں:

جب امام حسین علیہ السلام مدینہ منورہ سے سفر کرنے لگے، تو حملہ کرنے کی حالت میں تھے اپنے بھائی محمد بن حنفیہ رضی اللہ سے جو وصیت کی اس میں یہ فرمایا:
“دنیا کے لوگوں کو یہ جان لینا چاہئیے میں ایک جاہ طلب ، مقام طلب، خلل ڈالنے والا ،فساد اور ظلم کرنے والا شخص نہیں ہوں میرا مقصد و ہدف یہ نہیں ہے ،میرا قیام کرنا اصلاح طلبی کی خاطر ہے اس لیے گھر سے نکلا ہوں اپنے جد کی امت کی اصلاح کروں، میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں۔”
اس خط میں محمد بن حنفیہ سے نہ تو بیعت کا کہیں ذکر ہے اور نہ ہی اہل کوفہ کی دعوت کا تذکرہ ہے، کیونکہ ابھی تک اہل کوفہ کا مسئلہ پیدا ہی نہیں ہوا۔

(5) تحریک حسینی کی اہمیت:

تحریک حسینی میں تین عوامل موثر ہے، ایک بیعت سے انکار ،دوسرا اہل کوفہ کی دعوت قبول کرنا اور تیسرا جو کہ جو ان دونوں سے زیادہ مستقل ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔ معلوم ہوا ہے کہ یہ تینوں میں سے ہر ایک خود بخود امام حسین علیہ السلام کے لیے وظیفہ تیار کرتے رہے ان کی وجہ سے ایک خاص رد عمل وقوع پذیر ہوتا رہا، ہم نے عرض کیا ہے کہ اس تحریک کی اہمیت ان تینوں عوامل کے لحاظ سے مختلف ہے، اگر تنہا اہل کوفہ کی دعوت کو مدنظر رکھیں تو اس کی ایک معین حد تک اہمیت ہوگی اگر انکار بیعت کے عامل کے لحاظ سے مختلف ہے، اگر تنہا اہل کوفہ کی دعوت کو مدنظر رکھیں تو اس کی ایک معین حد تک اہمیت ہوگی اگر بیعت کے عامل کو لیں تب اس کی اہمیت اور زیادہ قابل دید ہوگی اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر نظر رکھیں تب یہ دسیوں درجے بالا تر اور اہم تر ہوجاتی ہے۔

(6) قیام حسین علیہ السلام کا اساسی عامل:

امام حسین علیہ السلام کی تحریک میں تین بنیادی عناصر موثر رہے، مجموعی طور پر ان تین عوامل نے اس تحریک کو ایک بڑے حادثے کی شکل دی، ایک یہ کہ مرگ معاویہ کے فوراً بعد یزید یہ حکم دیتا ہے کہ امام حسین ابن امام علی علیہ السلام سے لازمی طور پر بیعت لی جائے، امام حسین علیہ السلام اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں، ان کا بہت زیادہ اصرار ہوتا ہے اور وہ کسی بھی صورت میں اس تقاضا سے صرف نظر نہیں کرتے ، امام حسین علیہ السلام بڑی شدت سے انکار کرتے ہیں کہ میں کسی بھی قیمت پر بیعت نہیں کروں گا ، یہیں سے تضاد اور شدید مبارزہ کا آغاز ہو جاتا ہے۔
دوسرا عامل جو اس تحریک میں مؤثر رہا اس عامل کو دوسرا بلکہ تیسرا درجہ حاصل ہے، امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں اہل کوفہ کی درخواست کے باعث ان شرائط میں کہ جب ادھر سے بیعت کا اصرار اور امام علیہ السلام کا شدت سے انکار اس بات کا موجب بنا کہ امام علیہ السلام مکہ ہجرت کر گئے ،دو ماہ مکہ میں قیام کے دوران کسی طرح اہل کوفہ کو خبر پہنچتی ہے اس وقت کوفہ کے لوگوں نے خود امام حسین علیہ السلام کو دعوت دی، یہ اس کے برعکس ہے جو ہم سنتے آئے ہیں، بعض درسی کتب میں تحریر بھی ہے ، ایسا نہیں تھا کہ اہل کوفہ کی دعوت کے بعد امام علیہ السلام نے قیام کیا ، بلکہ جب امام علیہ السلام حرکت کرنے لگے ہیں تب ہی اپنی مخالفت کو ظاہر کر دیا تھا اس کے بعد اہل کوفہ قیام امام حسین علیہ السلام باخبر ہوئے ، کیونکہ قیام کی تیاری ہو رہی تھی اس لیے اہل کوفہ آئے اور آپ علیہ السلام ہر کو دعوت دی۔
تیسرا عامل امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے اس عامل کو امام حسین علیہ السلام نے متعدد بار اور مکمل وضاحت کے ساتھ کے ساتھ بیعت اور دعوت اہل کوفہ کا ذکر کئے بغیر بیان کرتے رہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہی ایک اصل، مستقل اور اساسی عامل ہے اور یہی مطلب مستند ہے۔
چوتھا عامل امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ امام علیہ السلام صریحاً اس عامل کو مستند گرا دیتے ہیں اس حوالے سے احادیث پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اپنے ہدف کو بیان کرتے ہیں اور بار بار امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا نام لیتے ہیں اس ضمن میں بیعت اور اہل کوفہ کی دعوت کا ذکر نہیں کرتے۔
یہ عامل، دوسرے دو عوامل کی نسبت تحریک حسینی میں انتہائی مؤثر رہا ،اس عامل کی وجہ سے اس تحریک میں شائستگی پیدا ہوئی جو اسے ہمیشہ کیلئے زندہ کر گئی جو ہمیشہ یاد دلاتی رہے گی اور ہم سیکھتے رہیں گے، البتہ تمام عوامل اس قابل ہے لیکن اس عامل سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے، کیوں کہ یہ عامل نہ تو بیعت کا سہارا لیتا ہے اور نہ ہی اہل کوفہ کی دعوت کا محتاج ہے یعنی اگر اہل کوفہ کی طرف سے دعوت نہ بھی ہوتی تب بھی امام حسین ابن امام علی علیہ السلام امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے قانون کی بدولت قیام کرتے ، اگر بیعت کا تقاضا بھی نہ ہوتا تب بھی آپ علیہ السلام خاموش نہ بیٹھتے۔

(7) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے کیا؟

معروف اور منکر کا معنی، امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں کلمہ معروف میں وہ تمام اہداف شامل ہیں جسے اسلام مثبت سمجھتا ہے اور کلمہ منکر میں وہ تمام اہداف شامل ہیں جنہیں اسلام منفی سمجھتا ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نے تحریک حسینی کو اعلی ترین مقام پر پہنچا دیا۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں سے ہر ایک کے مراتب اور اقسام ہیں۔ لفظی، عملی، مستقیم ، غیر مستقیم، انفرادی، اجتماعی۔