جدید شہر سامرہ، دربار دجلہ کے کنارے بسا ہے جو بغداد سے تقریبا 60 میل کی دوری پر ہے روضہ کا سنہری گنبد ناصرالدین شاہ نے بنوانا شروع کیا اور 1905ء میں مظفرالدین شاہ نے مکمل کیا۔
اس سبزہ گنبد کے نیچے چار قبریں ہیں امام علی نقی علیہ السلام اور ان کے فرزند امام حسن عسکری علیہ السلام کی۔ بقیہ دو قبریں جناب حکیمہ خاتون جو امام علی نقی علیہ السلام کی ہمشیرہ تھیں اور جو بارہویں امام مہدی علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر موجود تھیں۔ اور چوتھی قبر جناب نرجس خاتون کی ہے جو امام زمانہ علیہ السلام کی والدہ ہیں۔
اس روضہ کے قریب ملا ہوا دوسرا روضہ ہے جہاں ایک سرداب ہے اور وہیں سے امام زمانہ علیہ السلام غیبت میں گئے تھے اس کا گنبد نیلی ،خوبصورت ٹائل سے بنا ہوا ہے نیچے سرداب میں جانے کے لیے سیڑھیاں ہیں جہاں زائرین پہنچ کر اعمال ادا کرتے ہیں۔
836ھ میں 2 سال کے اختلافات اورنگ زیب خلیفہ کے بعد خلیفہ معتصم اپنی ترکی فوج کے ساتھ سامرہ پہنچا وہاں اس نے اپنا مسکن اور چھاؤنی بنایا۔ 56 سال کے عرصے میں 8 خلفاء سامرہ میں گزرے ہیں۔ یہ نام اصلا “سر من رای” یعنی جو دیکھتا ہے مسرور اور خوش ہو جاتا ہے جسے معتصم خلیفہ نے خود رکھا تھا۔ تقریباً اس زمانے میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپیہ میں معتصم نے ایک عیسائی دیر کا بنایا ہوا باغ خریدا۔
خلیفہ کا ہی نام سامرہ ذو معنی تھا کیونکہ عیسائیوں پر عربوں کے فتح سے پہلے وہاں قریب میں ایک بستی سامرہ نام کی تھی جو آریائی نام کی تھی۔ اس ضلع کو ترہن کہا جاتا ہے۔ پس اس جگہ کا انتخاب نہایت ہی زرخیز اور دجلہ کے کنارے تھا۔ اور وہیں خلیفہ نے اپنا نیا پایہ تخت راجدھانی بنایا۔ بعد میں بنی ہاشم خلفاء کی دوسری راجدھانی کہا جانے لگا۔دریاۓ دجلہ کے کنارے کنارے مکانات تعمیر ہوۓ اور عیسائی دیر کے باغ میں معتصم نے اپنا عمل بنوایا جسے دارالعامہ کہا جاتا تھا اور عیسائی دیر خود بخود خزانے میں شمار ہو گئ۔ جامع مسجد کی تعمیر کے ایک کنارہ بنوائی گئی جہاں فوجی چھاؤنی تھی۔
مصطفوی کا بیان ہے کہ اس نے مسجد کا مینار تعمیر کرایا جو 19 میٹر اونچا تھا اور اس کا راستہ اوپر جانے کے لیے باہر سے تھا جس کی نقل آج تک کسی نے نہیں کی لیکن تولون کی ایک مسجد میں اس طرح کے مینار بنانے کا دعویٰ کیا گیا لیکن اس کے بعد ہی کی تعمیر تھی۔ لیکن جلد ہی ترکی فوج نے جن پر معتصم اور ان کے گھر والوں کا پورا بھروسہ تھا اپنے قبضہ میں لے لیا اپنی اس پوزیشن سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور خلیفہ کو عیش و عشرت خود یہاں تک کہ رات آگئی اور دن اور کے مطابق یہ دور ایسا تھا کہ خلیفہ کو جتنی فتوحات حاصل ہوئیں اتنا کسی گزشتہ خلیفہ کو نہیں ملی۔
خلیفہ سامرہ دجلہ کے دونوں کناروں پر محل پر محل تعمیر کرتے رہے یاقوت کے تخمینہ کے مطابق 204 ملین دینار خرچ کیے گئے۔ شاہنامہ میں درج ہے کہ ایک لکڑی کا درخت cypress کی ایک شاخ کو زرتشت جنت سے لائے تھے اور وہ تیز شیز کے قریب ایک گاؤں کشمار میں لگایا تھا جسے زرتشت کے ماجیان مذہب اختیار کرنے کی یاد میں لگایا تھا۔ یہ اتنا مضبوط تھا کہ کشمار کے آس پاس بہت بھیانک زلزلے آئے لیکن اس درخت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ قزوینی کے مطابق متوکل خلیفہ نے 861ھ میں اس مضبوط درخت کو گروایا اور ایران سے اونٹوں پر لدوا کر سامرہ منگوایا تاکہ اپنے عمل میں ستون کی جگہ استعمال کرسکے۔گوبرس کے احتجاج کے باوجود یہ کیا گیا۔ لیکن جب یہ دجلہ کے کنارے پہنچا تو متوکل مر چکا تھا جو اس کے بیٹے نے قتل کر دیا۔ مصطوفی نے چودھویں صدی میں بہت ہی دکھ کے ساتھ درج کیا ہے کہ کس طرح متوکل نے سامرہ کی توسیع کی اور کس طرح اس ایک زبردست کھوکھا تعمیر کیا جو ایران میں کہیں نہیں تھا اور اس کا نام جعفریہ اپنے نام جعفر پر رکھا۔ اس پر منحوسیت اتنی طاری ہوئی کہ اس نے حرم امام حسین علیہ السلام کو کربلا میں ڈھادیا کربلا کے زیارت سے روکا اور وصیت کی کہ اس کے مرنے کے بعد اس کھوکے کو مسمار کر دیا جائے تاکہ کوئی نشان نہ رہے جائے یقیناً سامرہ کا آج ایک حصہ آباد ہے جو ممنوع علاقہ تھا۔
چودھویں صدی عیسوی میں وہی ممنوعہ اور فوجی علاقہ آباد تھا جو آج جدید سامرہ کہا جاتا ہے اور وہ معتصم کے خیموں کا ایک حصہ تھا ہہاں حضرت امام علی نقی علیہ السلام اور حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کو قید کیا گیا تھا اور بعد میں انھیں زہر دغا سے شہید کیا گیا۔ اسی لیے اسے عکسریان کہا جاتا ہے، عربی زبان میں فوجی چھاؤنی کو عکسر کہا جاتا ہے۔ یہ دونوں امام یہیں دفن بھی ہیں۔
جدید سامرہ پرانی جامع مسجد سے بالکل قریب ہے جو مصطوفی کی بات کی تصدیق کرتا ہے کہ مسجد کے سامنے امام علی نقی علیہ السلام کے جو امام رضا علیہ السلام کے پوتے ہیں اور ان کے فرزند امام حسن عسکری علیہ السلام کے روضہ کے سامنے ہے۔ یہ خلفاء کا شہر جس کی وسعت کا اندازہ اس طرح لگایا جا سکتا ہے کہ یہ چھاؤنی، محل، باغات کو ہوائی جہاز سے دیکھنے سے صاف دکھائی دیتا ہے اس شہر کی تاریخ کو عرب نقشہ بنانے والوں مثلاً یعقوبی اور یاقوت نے ۔نقشہ کھینچا ہے اور جدید آثار قدیمہ کے ماہرین نے اپنی تحقیق میں مزید شاہراہ اور بہت سے محلّوں کا پتہ لگایا ہے۔ یہ مسلم فنکار اور نقاشی کی دلچسپی کا باعث ہے کیونکہ یہ خلفاء عباسی کے سنہرے دور اور دنیا پر ان کے دبدبے کا دور تھا شہر سامرہ کے اسی حصہ سے امام حسن عسکری علیہ السلام کے فرزند دنیا والوں کی آنکھوں سے اوجھل ہوئے مصطوفی نے کہا کہ یہ واقعہ 264ہجری میں یعنی 878 عیسویں میں پیش آیا۔
حقیقت یہ ہے کہ بوید کے زوال کے بعد شیعوں کو چلا نامی مقام پر اپنا مرکز بنانے کی اجازت دی گئی جہاں سے انہوں نے کلا گوخان کے حملہ پر اس سے بات چیت ،نے اس بات کو عام کر دیا کہ امام غائب علیہ السلام اسی شہر حلا سے ظاہر ہوں گے۔ اسی وجہ سے ابن بطوطہ 1200ء جیسا سیاح بھی گڈمڈ گیا جس نے بارہویں امام سے منسوب مقام سامرہ اور حلہ میں بھی دیکھا۔ حلہ کی مسجد آخری امام علیہ السلام کے ظہور کے سلسلہ میں بنائی گئی ہے لیکن سامرہ میں مقام غیبت میں جانے کا ہے۔ حلہ میں ابن بطوطہ نے مشاہدہ کیا کہ مسجد کے داخلہ پر ریشم کے پردے لہرا رہے ہیں اور وہاں کی عوام کا یہ شیوہ تھا کہ روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں اپنی سواروں کے ساتھ ہتھیار بند مسجد کے دروازے پر آئے اور آواز لگاتے:
“اے یا امام زمانہ علیہ السلام، ظلم و جور بڑھ چکا ہے یہ وقت آپ علیہ السلام کے ظہور کا ہوچکا ہے آپ علیہ السلام کے ذریعہ خدائے تعالیٰ حق و باطل میں تفریق کریگا۔”
وہ رات ہونے تک مسجد کے باہر رکتے پھر اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے سامرہ اس زمانے میں کھنڈر ہو گیا تھا اور ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامہ میں لکھا ہے کہ وہاں امام زمانہ علیہ السلام سے منسوب مشہد ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس بات کی تصدیق نہیں کی گئی کہ وہ مشاہد ائمہ علیہ السلام ،امام علی نقی علیہ السلام اور امام حسن عسکری علیہ السلام کی یاد میں ہیں اور قریب ہی وہ مقدس مقام ہے جہاں سے امام زمانہ علیہ السلام غیبت میں گئے تھے۔
Add Comment