تاریخی حقائق

مسجد براثا کی فضیلت

 مسجد براثا مشورہ متبرک مسجدوں میں سے ایک ہے بغداد و کاظمین کے درمیان زائروں کے راستہ میں واقع ہے اس کے بہت سے فضائل نقل ہوئے ہیں لیکن اکثر زائرین اس کے فیض سے محروم ہیں اور اس کی اعتناء نہیں کرتے ہیں۔ 600ھ کے مورخ حموی نے معجم البلدان میں لکھا ہے کہ براثا بغداد کا محلہ تھا، قبیلہ کرخ اور باب محول کے جنوب میں اس میں جامع مسجد تھی جس میں شیعہ نماز پڑھتے تھے بعد میں خرابہ میں تبدیل ہوگئی۔

ایک قول یہ بھی ہے کہ راضی باللہ عباسی خلیفہ کے زمانہ سے پہلے شیعہ اس مسجد میں جمع ہوتے تھے اور خلفاء کو برا بھلا کہتے تھے راضی باللہ خلیفہ کے حکم سے لوگ اس پر ٹوٹ پڑے اور جو پایا کہ گرفتار کر لیا اور قید میں ڈال دیا اور مسجد کو شہید کرکے زمین کے برابر کر دیا شیعوں نے اس واقعہ کی خبر بغداد کے امیر الامراء حاکم ماکانی کو دی، اس نے حکم دیا کہ مذکورہ مسجد کو وسیع تر اور مضبوط محکم بنا دیا جائے اور اس کے صدر دروازہ پر راضی باللہ کا نام لکھ دیا جائے یہ مسجد ہمیشہ بھری رہتی اور نماز ہوتی رہتی لیکن 400ھ میں اس کی رونق ختم ہوگئی اور اب تک اسی حالت میں ہے۔

بغداد کے وجود میں آنے سے پہلے براثا ایک گاؤں تھا،لوگوں کا خیال ہے کہ جب علی علیہ السلام نہروان میں خوارج سے جنگ کے لیے جا رہے تھے اس وقت یہاں سے گزرے تھے اور اس مسجد میں نماز پڑھی تھی اور اس حمام میں بھی گئے تھے جو اس گاؤں میں تھا اور اسی براثا کی طرف ابو شعیب براثی عابد منسوب ہے۔ براثا میں سب سے پہلے اسی نے سکونت اختیار کی وہ کوخ یعنی نرکل کی جھونپڑی میں خدا کی عبادت کرتا تھا کہ ایک مرتبہ اس طرح سے اس زمانے کے کسی مالدار کی لڑکی کا گزر ہوا جو کہ محلوں کی پروردہ تھی، جب اس نے ابو شعیب کو اس حال میں دیکھا تو اسے بھلا معلوم ہوا اور ابو شعیب کے جذبہ نے اسے متاثر کیا کہ اس کی گرودیدہ ہوگئی، مجبور ہوکر اس عابد و زاہد کے پاس آئی اور کہا: میں چاہتی ہوں کہ آپ کی خادمہ بن جاؤں۔ اس نے کہا: مجھے منظور ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کے اس شان و شوکت سے بے نیاز ہونا پڑے گا۔ اس سعادت مند عورت نے بھی یہ بات قبول کر لی اور سب کچھ چھوڑ کر زاہدانہ زندگی اختیار کر لی۔ ابو شعیب نے اس سے شادی کر لی، جب وہ عابد کی جھونپڑی میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ اس میں ایک چٹائی کا ٹکڑا پڑا ہے جس کو ابو شعیب زمین کی نمی و رطوبت سے بچنے کے لیے بچھا لیتے تھے۔ لڑکی نے کہا: میں آپ کے ساتھ نہیں رہ سکتی جب تک کہ نیچے سے چٹائی کے اس ٹکڑے کو نہیں ہٹائیں گے کیونکہ میں نے آپ ہی سے سنا ہے کہ زمین کہتی ہے،

یا ابن تجعل بینی و بینک حجابا و آنت غدا فی بطنی

(اے فرزند آدم میرے اور اپنے درمیان پردہ قرار دیتے ہو حالانکہ کل میری آغوش میں آؤگے۔)

ابو شعیب نے اس ٹکڑے کو پھینک دیا وہ لڑکی چند سال اس کے ساتھ رہیں دونوں بہترین طریقہ سے عبادت کرتے تھے کہ دونوں نے وفات پائی۔ موئف کہتے ہیں: ہم نے اپنی کتاب “ھدیۃ الذائرین” میں اس مسجد کی فضیلت سے متعلق چند احادیث نقل کی ہیں اور وہ وہی یہاں بھی لکھا ہے کہ ان احادیث سے مسجد کی اتنی فضیلت معلوم ہوتی ہے کہ اگر ان میں سے دوسری مسجد کے لئے ایک بھی ہوتی تو مناسب تھا کہ انسان اس کی طرف سفر کرے اور منازل طے کرے تاکہ اس مسجد میں نماز و دعا کے فیض سے مستفیض ہو:

(1) خدا کا یہ مقرر کرنا کہ اس زمین پر پیغمبر یا اس کے وصی کے علاوہ کوئی رائیس لشکر کے ساتھ نہیں اترے گا۔

(2) یہ حضرت مریم سلام اللہ علیہا کا گھر ہے۔

(3) حضرت عیسی علیہ السلام کی زمین ہے۔

(4) یہاں وہ چشمہ ہے جو حضرت مریم سلام اللہ علیہا کے لئے ظہور ہوا تھا۔

(5) اس چشمہ کو باعجاز امیرالمومنین علیہ السلام کا ظاہر کرنا۔

(6) اس سفید پتھر کا وہاں ہونا کہ جس پر حضرت مریم سلام اللہ علیہا نے حضرت عیسی علیہ السلام کو لٹایا تھا۔

(7) امیرالمؤمنین علیہ السلام کا باعجاز اس کو باہر نکالنا اور اسے سمت قبلہ میں نصب کر کے اس طرف نماز پڑھنا۔

(8) حضرت امیر المومنین علیہ السلام اور حضرت حسن و حسین علیہ السلام کا وہاں نماز پڑھنا۔

(9) اس زمین کے مقدس ہونے کی وجہ سے آپ علیہ السلام کا وہاں چار دن تک قیام کرنا۔

(10) وہاں پیغمبروں، خصوصاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نماز پڑھنا۔

(11) وہاں ایک پیغمبر کی قبر کا ہونا شاید وہ پیغمبر حضرت یوشع علیہ السلام تھے شیخ مرحوم رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان کی قبر کاظمین سے باہر مسجد براثا کے پہلے دروازہ کے پاس ہے۔

(12) وہاں حضرت امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے لئے آفتاب کا پلٹنا۔

ان تمام فضائل اور حیدر کرار علی علیہ السلام کے معجزات کے ظاہر ہونے کے باوجود شاید ہزاروں میں سے کوئی جانتا ہو جبکہ ان کے راستہ پر واقع ہے، مگر وہاں سے ان کا گزر ہوتا ہے اور اگر کوئی اس کے فیض کو حاصل کرنا چاہتا ہے اور وہاں پہنچ جاتا ہے، اور مسجد کا دروازہ بند دیکھتا ہے تو معمولی پیسہ دے کر اسے کھلوانے میں شامل کرتا ہے اور اس کے سارے فیوضات سے محروم رہتا ہے جبکہ بغداد کو دیکھنے اور جباروں کی عمارتوں کو دیکھنے کے لیے اچھا خاصا پیسہ خرچ کرتے ہیں اور فضول مال و متاع خریدتا ہے اور اس کو زیارت کا جزء سمجھتا ہے۔