سیرت اہل بیت علیھم السلام

امام حسین ابن امام علی علیہ السلام کی انقلابی شخصیت

 1)شخصیات کی درجہ بندی:

شخصیات کی کئی اقسام ہیں بعض انقلابی شخصیات ہوتی ہیں اور ان کی روح میں تحریک اور جوش و ولولہ ہوتا ہے بعض افراد کی روح غنی ہوتی ہے بعض افراد کے روح میں رثا ، آہ نالہ ہوتا ہے بعض کی روح وعظ نصیحت والی ہوتی ہے۔

2) حضرت سید الشہداء علیہ السلام کی حماسی شخصیت:

آیا امام حسین ابن امام علی علیہ السلام کی شخصیت حماسی (جرات مندانہ استقلال) ہے یا نہیں؟ آیا واقعہ کربلا حماسی ہے یا نہیں؟ کیونکہ امام حسین ابن امام علی علیہ السلام سلام ہمارے لئے انسانی ہیں لہذا ہمیں اسے سمجھنا چاہیے ، اس شخصیت امام حسن علیہ السلام پر ہر سال کتنا وقت صرف ہوتا ہے کتنے پیسے خرچ ہوتے ہیں کئی روز تعطیلات ہوتی ہیں لہذا آپ علیہ السلام کی خصوصیات کو پہچاننا چاہیے۔ ان میں سے ایک خصوصیت یہی ہے کہ آیا امام حسین علیہ السلام ایک حماسی شخصیت ہیں یا نہیں؟ کیا امام حسین علیہ السلام کو ایک حماسی شخصیت سمجھا جانا چاہیے یا نہیں؟ یا غم زدہ ، مصیبت،رثا اور قابل رحم سمجھنا چاہیے؟

3) امام حسین ابن امام علی علیہ السلام کی شخصیت کی کلید:

اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ میں نے شخصیت امام حسین علیہ السلام کی کلید حاصل کر لی ہے اگر انصاف سے دیکھا جائے تو اس کا یہ دعویٰ باطل ہے میں یہ کہنے کی جرات نہیں کر سکتی لیکن اتنا سا دعویٰ ضرور کر سکتی ہوں کہ جس حد تک میں شخصیت امام حسین علیہ السلام کی شناخت کر سکی ہوں جو کچھ تاریخ میں پڑھا ہے افسوس ہے کہ پوری تاریخ ہماری دسترس میں نہیں ہے میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ عاشورہ کی تاریخ خوش بختی سے اس قدر مضبوط ہے خطبات ، نصائح اور اشعار امام حسین علیہ السلام سے جو حاصل کیا ہے تو میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ میری نظر میں امام حسین علیہ السلام کی شخصیت کی کلید، جرآت و استقلال ہے جوش و ولولہ ہے عظمت ہے صلابت، شدت ہے ،استقلال ہے ،حق پرستی ہے۔

4) حماسی شخصیت کی خاصیت:

ایک بات یا تاریخ یا شخصیت کے حماسی ہونے کی خاصیت اور اثر انداز ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ روح کو تڑپا دیتی ہے حمیت و غیرت کو بیدار کرتی ہے ، شجاع و بے خوف بنا دیتی ہے۔ بدن میں خون کو حرکت میں لے آتی ہے جوش و ولولہ کو ابھارتی ہے ، تن کو سستی اور آرام پسندی سے نجات دلاتی ہے اور اسے چابکدست بنا دیتی ہے۔ کتنا ہی خون اب تک بہایا جا چکا ہے جس کا ہدف فقط خون ریزی ہو تو اس کا اثر اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا ،لوگ مرعوب ہو جائیں گے ،ملت اور لوگوں کی طاقت کم ہو جائے گی، اس صورت میں سانس لینا بھی مشکل ہوگا۔

5) امام حسین ابن امام علی علیہ السلام کی عظیم روح:

شب عاشور کی شرائط کی مانند جب دشمن پر غلبہ حاصل کرنے کے تمام ظاہری راستے بند ہو چکے تھے یہاں امام حسین علیہ السلام کی جگہ کوئی اور شخص ہوتا اور اسے یہ بھی یقین ہوتا کہ خود بھی اپنے اصحاب کے ہمراہ قتل ہوجانا ہے ایسی کڑی شرائط میں وہ ضرور شکایت کرتا اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔ ایسے جملات ادا کیے جاتے ہیں کہ لعنت ہو فلاں پر یا تف ہے ایسے روزگار پر۔ کہتے ہیں نپولین جب ماسکو میں ایک حادثے کا شکار ہوا تو اس نے کہا کہ قدرت نے چند گھنٹے میرا ساتھ نہیں دیا ، وہ ہاتھ ملتا تھا اور یہ کہتا تھا کہ اے روزگار تم پر لعنت ہو کہ مجھے شکست سے دو چار کر دیا۔
لیکن امام حسین ابن امام علی علیہ السلام اپنے اصحاب کو جمع کرتے ہیں ایسے گویا آپ علیہ السلام کی روح سب سے موفق اور موج آفریں ہے فرماتے ہیں:
“ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا سب کچھ آپ علیہ السلام کے لیے آمادہ و تیار اور سازگار تھا اور حقیقت بھی یہی ہے، یہ شرائط ان کے لئے واقعا نقصان دہ ہوتی ہیں جن کا ہدف و مقصد دنیاوی حکومت ہوتا ہے۔”
جس کے لیے حکومت اور سب کچھ حق و حقیقت کی خاطر ہو، تب وہ جو بھی قدم اٹھائے گا اور اس کے لیے حالات سازگار ہی ہوں گے، وہ سوائے شکر اور سپاس گزاری کے اور کچھ نہیں کہے گا۔

6) حماسی روح کے نتائج:

کیا آیات قرآن مجید میں حماسہ ہے؟
ترجمہ:
“حقیقت یہ ہے کہ ساری عزت اللہ تعالی کی ہے اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے اور اہل ایمان کی ہے۔”
ایک اور آیت کریمہ میں یہ بیان کیا گیا ہے۔
ترجمہ:
“اللہ تعالی کافروں کے لئے مسلمانوں پر غلبہ پانے کی کوئی راہ نہیں دے گا۔”
حماسہ دراصل کلی طور پر باطنی کیفیات کی طرف متوجہ ہونا ہے ایسی کیفیت بھی بعض اوقات ہوتی ہے جو بے بنیاد ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر یہ کہہ جرمن لوگ یا ختم ہو جائیں گے یا پھر دنیا کی حکمرانی حاصل کرلیں گے اور اسی طرح دوسرے حماسے مثلاً دوسروں سے برتر اور مقدم ہونے کا حماسہ وغیرہ۔
حماسی سخن حماسی تاریخ حماسی شخصیت وہ جو باطنی لحاظ سے غیرت ،حمیت ،شجاعت اور فداکاری کو حرکت میں لے آئے ، بدفی لحاظ سے خون کو رگوں میں گرمادے، بدن کو حرارت ، چالاکی اور چشتی میں لے آئے درحقیقت حیات تازہ عطا کر دے، دیگر روح کو تڑپا دے، انقلاب برپا کر دے، ستم اور ستم گر کے مقابلے کے لیے مزاحمت پیدا کردے۔

7) بے داری حر کی علت:

حر سید الشہداء علیہ السلام کا گروہ دیدہ ہو گیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ آپ علیہ السلام کے ساتھ ساتھ رہا اور آپ علیہ السلام کو قریب سے جاننے کا موقع ملا۔

8) امام حسین ابن امام علی علیہ السلام کی عظمت:

امام حسین ابن امام علی علیہ السلام ایک بزرگ و مقدس روح ہیں بنیادی طور پر اگر روح بزرگ ہوجائے تو پھر جس کو زحمت اٹھانا پڑے گی جب روح معمولی رہ جائے یا چھوٹی ہوجائے تب تن آسائش پسند ہو جائے گا یہ بات ایک معیار کے مطابق ہے ابن عباس رضی اللہ جیسے روکنے کے لیے آئے مگر روح حسین علیہ السلام اس کی اجازت نہیں دیتی۔ عرب کا مشہور شاعر متنبی، جس نے اچھے شعر کہے کہتا ہے۔
و اذا کالت النفوس کہارا
تغبت فی مرادھا الاجسام
کہتا ہے:
جب روح بزرگ ہو جائے تو پھر تن کے لیے کوئی چارہ نہیں رہتا کہ روح کے پیچھے چل پڑے اور ناراحت رہے لیکن معمولی روح تن کی خواہشات کے پیچھے ہوتی ہے، وہ تن کے فرمان کی اطاعت کرتی ہے چوٹی روح بدن کے لقمے کے لئے کوشش کرتی ہے چاہے اس سے خوشامد چاپلوسی سے ہی کام لینا پڑے معمولی روح عہد اور مقام کے پیچھے ہوتی ہے ،چاہے اس کے لئے عزت و ناموس ہی گروی رکھنا پڑے، معمولی روح تن کو ہر ذلت و بدبختی کے لیے تیار کر دیتی ہے، کیونکہ تن کے لیے قالین و صوفہ ضروری ہے آسائشِ چاہتا ہے آرام کی نیند ضروری ہے ،لیکن روح بزرگ تن کو نان جویں کھلاتی ہے ،ہے پھر یہ روح سے بیدار کرتی ہے اور کہتی ہیں کہ زندہ داری کرو! بڑی روح جب اپنے وظیفے میں معمولی سے کوتاہی دیکھتی ہے تو اپنے جسم سے یہ کہتی ہے تم اس سر کو تنور میں لے جاو تاکہ حرارت کا احساس کرو تاکہ آئندہ یتیموں اور بیواؤں کے امور میں کوتاہی نہ ہونے پائے۔

9) امام حسین علیہ السلام کا عظیم کردار:

اگر امام حسین امام علی علیہ السلام کی شہادت صرف ایک غمگین واقعہ ہوتا اگر فقط ایک مصیبت ہوتی یعنی اگر یہی ہوتا کہ یہ خون ناحق بہایا گیا یا ایک تعبیر کے مطابق صرف ایک شخصیت کو قتل کیا گیا ، ایک ایسی شخصیت جو انتہائی اہم ہی کیوں نہ ہو تو ہر گز اس قدر آثار مرتب نہیں ہوتے، امام حسین ابن امام علی علیہ السلام کی شہادت کے اثرات اس لیے موجود ہیں کہ آپ علیہ السلام کی تحریک ایک الہی تحریک تھی، یہ داستان کوئی تاریخی داستان نہیں تھی اور نہ ہی ایک ستم گر گروہ کی جانب سے ظلم وستم تھا ، بلکہ ایک ایسا عظیم کردار تھا جس کی طرف سے مظالم ہوئے۔

10) روح جتنی بزرگ تر ہو گئی اتنی ہی قوی تر ہو گئی:

یعنی قدرت ،توانائی اور قوت ،غصہ و کینہ اور حسد کو تباہ کر دیتی ہے لہذا انسان جس قدر روحی لحاظ سے قوی تر ہوگا اسے ایسے مسائل کم پیش آئیں گے انسان روحی لحاظ سے جس قدر کمزور ہوگا تو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ کمزوری محسوس کرے گا اور اس کے مسائل بھی اتنے زیادہ ہوں گے اور جو روحی حوالے سے کمزور رہے گا اور ایسے مسائل اسے زیادہ پیش آئیں گے۔