1) شہادت مقدس ہے:
ہم میں سے اکثر لوگ صرف امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت اور بے جرم و خطا شہادت پر گریہ و زاری کرتے ہیں افسوس کرتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام ایک بچے کی مانند جو ایک ظالم و جاہ طلب کی بھینٹ چڑھ گیا ہو اور قصہ ختم ہو گیا، اگر یہی صورت ہو تب امام حسین علیہ السلام مظلوم اور بے قصور ہیں جیسا کہ اسی طرح کی دوسری قربانیاں ظلم کی وجہ سے مظلوم اور بے قصور ہوتی ہیں لیکن وہ شہید نہیں ہیں یہاں تک کہ سید الشہداء کہا جائے؟
امام حسن علیہ السلام کی قربانی صرف دوسروں کی ہوس اور جاہ طلبی کی وجہ سے نہیں تھی اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سانحہ کی نسبت ان قاتلوں کی طرف ہے ظلم و بربریت ، ہوس اور جاہ طلبی ہے، لیکن جہاں آپ علیہ السلام کی طرف نسبت ہے تو وہ شہادت ہے یعنی آگاہی اور ہوشیاری کے ساتھ۔ اپنے مقدس ہدف کے لئے جدوجہد کرنا آپ علیہ السلام سے بیعت چاہتے تھے آپ علیہ السلام نے تمام عواقب سے باخبر ہونے کے باوجود اسے قبول نہیں کیا اس کے علاوہ آپ علیہ السلام سخت معترض تھے اور ان شرائط میں خاموشی کو اپنے لئے گناہ عظیم تصور کرتے تھے آپ علیہ السلام کی تاریخ خاص طور پر آپ علیہ السلام خود اس کی روش ترین گواہ ہیں۔
2)امام حسین علیہ السلام کوفیوں کے دلوں سے آگاہ تھے:
امام حسین علیہ السلام جانتے تھے کہ اہل کوفہ وہ نہیں ہیں ان کو لوگ سست اور خوف زدہ جانتے تھے عین حال تاریخ کا کیا جواب دیں؟ قطعاً اگر امام حسین علیہ السلام اہل کوفہ پر اعتبار نہ بھی کرتے ، ہم لوگ جو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں یہ کہیں گے امام حسن علیہ السلام نے کیوں مثبت جواب نہیں دیا۔ ابوسلمہ خلال جسے بنی عباس کے دور میں وزیر آل محمد کہا جاتا تھا جب خلیفہ عباسی سے اختلاف ہوا فوراً قتل کر دئیے گئے قتل سے پہلے فوراً دو خط لکھے ایک امام جعفر صادق علیہ السلام کے نام اور دوسرا عبداللہ محض کے نام۔ دونوں کو آن واحد دعوت دی کہا کہ میں اور ابو مسلم اب تک ان کے لیے کام کرتے رہے ہیں، اب اس وقت چاہتے ہیں کہ آپ کام کریں ، آئیں مل کر کام کرتے ہیں ہم انہیں نیست ونابود کر دیں گے۔
3) امام حسین علیہ السلام تاریخ کے سامنے:
اگر 18000 خطوط اہل کوفہ کی طرف سے مدینہ یا مکہ خاص طور پر مکہ پہنچے اور آپ علیہ السلام مثبت جواب نہ دیتے تو تاریخ امام حسین علیہ السلام کو ملامت کرتی کہ اگر امام حسین علیہ السلام کوفہ چلے جاتے تو یزیدی اور یزیدیت کو نیست و نابود کر دیتے اور ظلم و ظالم کا خاتمہ ہوجاتا ، کوفہ جو کہ مسلمانوں کی فوجی چھاؤنی کے طور پر مشہور تھا شجاع لوگ تھے امام علی علیہ السلام ان کے درمیان پانچ سال رہے ابھی تک امام علی علیہ السلام کی تعلیمات وہ یتیم بچے جو امام علی علیہ السلام کی پرورش میں رہے، وہ بیوہ خواتین جن کے آپ علیہ السلام سرپرستی فرماتے تھے ابھی تک زندہ موجود تھے ابھی تک امام علی علیہ السلام کی صدا ان کے کانوں میں گونج رہی تھی۔
4) واقعہ کربلا یقینی تھا:
روایات کے مطابق اسی طرح ان اعتقادات کے مطابق جو ہم سید الشہداء علیہ السلام کی امامت کے متعلق رکھتے ہیں آپ علیہ السلام کے تمام امور روز اول سے ہی طے شدہ تھے آپ علیہ السلام نے کوئی بھی کام، بغیر حساب و کتاب و بغیر منطق و دلیل کے انجام دیا یعنی یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں قضیہ اتفاقاً یا حادثاتی طور پر وقوع پذیر ہوا، یہ مطلب اگرچہ تاریخی قرائن سے روشن ہے اور منطق و روایات اور ہمارے اعتقاد کے مطابق جو کہ حضرت سید الشہداء کی امامت پر مبنی ہے کی تائید ہوتی ہے
5) امام حسین علیہ السلام کی دورا اندیشی:
تحریک حسینی کے تقدس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ایک انتہائی قوی رشد و فکر موجود ہے یعنی یہ قیام و حماسہ اس لحاظ سے مقدس ہے کہ قیام کرنے والا ایسی چیز دیکھ لیتا ہے جو دوسرے نہیں دیکھ سکتے ، وہی معروف ضرب الامثال کے مطابق جو لوگ ایک چیز کو آئینہ میں نہیں دیکھ سکتے لیکن وہ اسے خشت خام (پختہ اینٹ) میں دیکھ لیتا ہے کام کا اثر دیکھ لیتا ہے عام افراد کی منطق سے بالاتر منطق کا کا مالک ہوتا ہے معاشرے کے عقلاء کی منطق سے بالاتر منطق، ابن عباس،ابن حنیفہ، ابن عمر اور کثیر تعداد جو کمال خلوص نیت سے امام حسین ابن علی علیہ السلام کو سفر کربلا سے منع کر رہے تھے، اپنی منطق کے مطابق وہ اس کا حق رکھتے تھے لیکن امام حسین علیہ سلام ہوں چیز دیکھ رہے تھے جو یہ نہیں دیکھ سکتے تھے ،نہ وہ امام حسین بن علی علیہ السلام سے زیادہ اس حادثے کے خطرے کا احساس رکھتے تھے اور نہ ہی یہ سمجھ سکتے تھے کہ آئندہ اس بڑے سانحہ کے کیا اثرات ہوں گے۔ لیکن آپ علیہ السلام پر سب کچھ واضح تھا آپ علیہ السلام آئندہ پیش آنے والے حادثہ سے باخبر تھے اور دیکھ رہے تھے کہ کیا ہونے والا ہے چند مرتبہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:
خدا کی قسم یہ مجھے ضرور قتل کر دیں گے، خدا کی قسم میرے قتل ہونے سے ان کی حالت یعنی حکومت دگر گوں ہو جائے گی۔ یہ آپ علیہ السلام کی قوی دور اندیشی ہے۔
6) تکامل کا عالی ترین مقام:
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: “میرے جد نے فرمایا ہے کہ تمہارا خدا کے نزدیک درجہ ہے تم سوائے شہادت کے اس کو نہیں پا سکو گے پس امام حسین علیہ السلام کے نزدیک شہادت ایک ارتقاء ہے جو عالی ترین حد تکامل ہے۔
7) امام حسین علیہ السلام مطمئن ہیں:
امام حسین علیہ السلام کا جملہ روز عاشور اس بات کی تائید کرتا ہے کہ آپ علیہ السلام مطمئن تھے کہ میری یہ قربانی بنو امیہ کی آبرو اور مقاصد کو نابود کرکے رکھ دے گی اور امامت کی آبرو بلند تر ہوجائے گی۔
8) وصال الہیٰ کے قریب:
روزہ عاشور جیسے ہی امام حسین علیہ السلام نے اصحاب کے ہمراہ نماز فجر تمام کی فرمایا: اصحاب من ! آمادہ رہیں، موت فقط وہ پل ہے جو اس دنیا تک پہنچاتی ہے یہ ایک سخت ترین دنیا سے ایک بہترین دنیا تک جو شریف و لطیف ہے جوواقعہ نگار وہاں موجود تھے انہوں نے کہا: حتیٰ ہلال بن نافع جو عمر سعد کا واقعہ نگار تھا اس نے بھی اسے نقل کیا، کہتا ہے کہ میں حسین بن علی علیہ السلام پر حیران ہوں کہ آپ علیہ السلام جس قدر شہادت اور مشکلات کے قریب تر ہو رہے تھے آپ علیہ السلام کا چہرہ اسی طرح نورانی اور مطمئن تر ہو رہا تھا جیسے انسان وصال کے قریب ہو۔
9) وقت وصال مسکراتے ہوئے:
امام حسین علیہ السلام نے صبح عاشور اپنے اصحاب سے فرمایا:
موت فقط پل کے علاوہ اور کچھ نہیں جس پر سے گزرنا ہے، اے اصحاب من! ہمارے سامنے ایک پل ہے جس پر سے گزرنا ہے اس پل کا نام موت ہے جب اس پل سے گزر جائیں گے تو پھر وہاں پہنچ جائیں گے جو قابل تصور نہیں، لمحہ با لمحہ موت کے نزدیک ہو رہے ہیں لیکن امام حسین علیہ السلام کے چہرہ مبارک پر تبسم اور مسکراہٹ زیادہ نظر آرہی ہے۔
ایک واقعہ نگار جو عمر سعد کے ہمراہ تھا جب جنگ تمام ہو چکی اور امام حسین علیہ السلام مقتل گاہ میں بے حال ہو کر گر پڑے ایک ثواب کی نیت سے، یہ واقعہ نگار عمر سعد کے پاس آیا اور کہا: اجازت دو کہ میں چلو بھر پانی امام حسین ابن علی علیہ السلام کے لیے لے جانا چاہتا ہوں کیونکہ وہ اس وقت موت کے قریب ہیں وہ یہ پانی پیئیں یا نہ پیئیں تمہارے پر اس کا اثر نہیں ہوگا۔ عمر سعد نے اجازت دے دی لیکن جب یہ گیا تو وہ لعین ازل تا ابد شمر واپس آ رہا تھا اور اس کے ہاتھوں میں امام حسین علیہ السلام کا مقدس سر تھا، یہی شخص امام حسین علیہ السلام کے لیے پانی کے جا رہا تھا کہتا ہے: چہرے کی بشاشت نے مجھے آپ علیہ السلام کے قتل کی طرف فکر کرنے کا موقع ہی نہیں دیا کہ امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک تن سے جدا کر دیا گیا جبکہ لب خندان تھے چہرے پر تبسم تھا۔
Add Comment