حضرت فاطمہ بنت اسد علیہ السّلام نے حاضرین سے خطاب کیا اور اشاد فرمایا:
“اے لوگو! اللہ تعالی نے مجھے اپنی مخلوق سے میں سے چنا ہے اور مجھے پہلی خواتین پر فضیلت دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بی بی آسیہ بنت مزاحم کا انتخاب کیا۔ اس نے چھپ کر خدا کی عبادت کی تھی ہے جس میں اضطراری حالت کے بغیر خدا نہیں چاہتا کہ اس مقام پر اس کی عبادت کی جائے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم بنت عمران کا انتخاب کیا ، جب ان کے ہاں حضرت عیسیٰ کی ولادت ہوئی تھی تو انہوں نے بھوک مٹانے کے لئے ویران جگہ پر ایک خوش کا کھجور کو ہلایا تھا اور اس سے تازہ کھجور یں گری تھیں۔
اللہ تعالی نے مجھے اس پر بھی فضیلت دی اور مجھ سے پہلے تمام جہانوں میں جتنی بھی عورتیں گزری ہیں، ان سب پر مجھے فضیلت دی، کیونکہ میں نے اپنے بچہ کو خدا کے قدیم گھر میں جنم دیا ہے اور میں نے وہاں تین دن قیام کیا۔اس عرصہ میں میں جنت کا رزق اور وہاں کے ثمرات کھاتی رہی۔۔۔۔۔۔”
اس تفصیل کے بعد اس واقعہ کے وقوع پذیر ہونے میں کوئی شک باقی نہیں رہا اور خدا کی قدرت اور اس کے ارادہ پر تعجب کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔
اگر خدا اپنے ولی کی ولادت کے لئے زمین کے افضل ترین حصہ کا انتخاب کرلے تو پھر اس میں تعجب کا کیا مقام ہے؟؟ اور اگر خدا اپنے دل کے زچہ خانہ کو ممتاز کرنا چاہے تو پھر اس میں شک کیسا اور حیرت کیسی؟؟
اگر خدا اپنے مقرب بندوں پر عطیات و احسانات کی بارش کرے، تاکہ وہ خدا کے ہاں ان کی محبوبیت کی دلیل بن جائے تو پھر اس میں کونسی قباحت ہے اور اس میں کیا رکاوٹ ہے؟
حضرت علی علیہ السلام کی حرم میں ولادت کا تذکرہ شیخ مفید (المتوفی ٤٣١ھ) نے اپنی کتاب ارشاد میں کیا ہے۔ اس طرح سے شیخ طوسی اور ماہر انساب علی ابن ابی الغنائم اور شہید رحمۃ اللہ نے مزار میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔سید ابن طاؤس نے مصباح میں اور علامہ حلی (المتوفی٧٣٦ھ) نے اپنی کتاب “کشف الحق وکشف الیقین” میں اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔
قرن دوم کے شاعر سید حمیدی نے حضرت علی علیہ السلام کی ولادت پر حسب ذیل نظم قلم بند کی تھی جس کا ترجمہ یوں ہے:
“ان کی والدہ ماجدہ نے انہیں خدا کے حرم اور مقام امن میں جنم دیا تھا۔ وہ خاتون انتہائی عفیفہ اور پاکباز تھیں۔ان کا نومولود بھی پاک تھا اور زچہ خانہ بھی پاک تھا۔ جیسے آج تک دایوں کے کپڑوں میں اس جیسے طاہر کو نہیں لپیٹا گیا ۔البتہ فرزند آمنہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے مستثنیٰ ہیں۔”
محمود آلوسی نے عبد الباقی العمری کے قصیدہ کی شرح میں یہ الفاظ لکھے:
“امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کا کعبہ میں پیدا ہونا دنیا کا مشہور واقعہ ہے اور اسے سنی شیعہ علماء نے نقل کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ آپ علیہ السلام کے ولادت مشہور ہے اتنی کسی کی بھی ولادت کو شہرت حاصل نہیں ہوئی ہے۔”
حضرت ابوطالب علیہ السلام نے اپنی زوجہ حضرت فاطمہ بنت اسد علیہ السلام کو نومولود کی مبارک دی اور اپنے فرزند کو اٹھا کر سینہ سے لگایا پھر انکی والدہ کے حوالے کیا۔
رسول خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ابن عم کو دیکھنے کے لیے تشریف لائے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جمال مبارک پر نومولود کی نظر پڑی تو مسکرانے لگے۔ یوں لگتا تھا جیسا کہ ایک سال کا بچہ مسکرا رہا ہو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ابن عم کو اٹھایا اور آپ علیہ السلام کو بوسے دیئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مولود ذی جود کی ولادت پر خدا کی حمد کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علم الہی سے جانتے تھے کہ یہی مولود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھائی اور وزیر ہوگا اور یہی بچہ اول المومنین ہوگا اور یہی معصوم بچہ مستقبل میں دین خداوندی کی ترویج و تبلیغ کرے گا۔
الغرض اس نومولود معصوم بچے نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کیا اور اس کے بعد نومولود نے ان آیات کی تلاوت کی جس کا ترجمہ نیچے دیا گیا ہے:
“یقیناً ان اہل ایمان نے فلاح پائی ہے جو اپنی نمازوں میں خشوع کرنے والے اور جو لغویات سے منہ موڑنے والے ہیں اور جو زکوٰۃ کا عمل انجام دینے والے اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں سوائے اپنی بیویوں اور ان کنیزوں کے جو ان کی ملکیت ہوتی ہیں ان کے لیے وہ قابل ملامت نہیں ہیں۔ جو ان کے علاوہ کسی اور طریقہ سے جنسی تسکین تلاش کرے تو وہ زیادتی کرنے والے ہیں اور وہ جو کہ اپنی امانتوں اور معاہدوں کی پاسداری کرتے ہیں اور جو کہ اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں یہی لوگ وارث ہوں گے جو کہ فردوس کی وراثت پائیں گے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔”
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اپنے بھائی کی زبان سے یہ آیات سنیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
“فلاح پانے والوں کا امیر تو ہے اور تو انہیں اپنے علوم کا رزق فراہم کرے گا اور وہ حاصل کریں گے خدا کی قسم! تو ان کا رہبر ہے اور تیری ہی ذریعہ سے وہ ہدایت پائیں گے۔”
رئیس مکہ حضرت ابو طالب علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی ولادت کی خوشی میں بہت بڑی خیرات کا اہتمام کیا اور منادی کرائی:
“لوگو! آؤ میرے فرزند کی پیدائش کے ولیمہ میں شرکت کرو۔”
بیضتہ البلد ابوطالب علیہ السلام نے اپنے فرزند کی پیدائش پر تین سو اونٹ اور ایک ہزار گائے اور بکریاں ذبح کرائیں اور اہل مکہ کو عظیم ولیمہ دیا اور لوگوں سے فرمایا:
“جو میرے فرزند کے ولیمہ میں شرکت کا خواہش مند ہے تو وہ آئے اور بیت اللہ کے گرد سات اشواط پر مشتمل طواف کرے اور میرے فرزند پر سلام کرے۔ اللہ نے میرے بیٹے کو شرف عطا کیا ہے۔”
(بحار الانوار، جلد ٩)
Add Comment