1) ذلت آمیز بیعت پر دستخط نہیں کیے:
امام حسین علیہ السلام مدینہ میں ہیں، معاویہ مرنے سے پہلے یزید کو اپنا جانشین تسلیم کروانا چاہتا تھا۔ مدینہ آتا ہے چاہتا ہے تاکہ امام علیہ السلام سے بیعت لے سکے لیکن کامیاب نہیں ہوتا معاویہ کے مرنے کے بعد یزید بیعت لینا چاہتا ہے، بیعت کرنا یعنی دستخط کرنا نہ فقط ایک شخص کی خلافت پر بلکہ اس سنت کو بھی قبول کرنا جس کی معاویہ بنیاد رکھ چکا تھا کہ مرنے والا بعد میں آنے والے خلیفہ کا تعین کرے نہ یہ کہ خلیفہ چلا جائے تب لوگ خود خلیفہ کی جانشینی کا تعین کریں یا اگر شیعہ ہوتے تو اس نص کے مطابق عمل کرتے جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہم تک پہنچی۔ نہ اس حکم پر عمل کرنا جسے نہ شیعہ نے کہا اور نہ ہی سنی نے، ایک خلیفہ دوسرے خلیفہ کو جانشین بنائے اپنے بیٹے کو مسلمانوں کا ولی عہد مقرر کر لے۔ اس لئے بیعت قبول کرنا یعنی معاویہ کی اس سنت کو بھی قبول کر لینا تھا جو اس نے پہلی مرتبہ شروع کی تھی۔
یہاں امام حسین علیہ السلام سے بیعت چاہتے ہیں یعنی ان کی طرف بیت کا تقاضہ ہوا ہے ، امام حسین علیہ السلام رد عمل ظاہر کرتے ہیں منفی رد عمل، بیعت چاہتے ہو؟ نہیں کرتا۔ یہاں امام حسین علیہ السلام کا عمل ایک منفی عمل ہے لیکن یہ صفت تقویٰ ہے اس صفت سے کہ معاشرے میں ہر انسان اس کا سامنا کرتا ہے جب مختلف صورتوں میں اس سے یہ تقاضہ کیا جاتا ہے شہوت، مقام کی صورت میں روب و دبدبہ صورت میں لیکن وہ ان کے مقابلے میں کہتا ہے کہ نہیں یعنی تقویٰ۔
2)تحریک حسینی کے عناصر:
مرگ معاویہ کے بعد یزید فوراً شام سے حاکم مدینہ ولید بن عتبہ بن ابی سفیان جو بنی امیہ میں سے تھا کو خط لکھا جس میں مرگ معاویہ کی خبر دی اور بتایا کہ باپ کی جگہ پر اب میں بیٹھ گیا ہوں خط میں چند لوگوں کے نام لکھے: سب سے اہم نام امام حسین علیہ السلام کا تھا کہ ان سے حتما بیعت لی جائے، امام حسین علیہ السلام بیعت کے لیے آمادہ نہیں ہوئے اور داستان جو کہ مکررسن چکے ہیں مکہ کی طرف چلے گئے۔ رجب کا آخری عشرہ تھا کہ مرگ معاویہ کی خبر مدینہ پہنچی اور ساتھ ہی بیعت کا تقاضہ کر دیا گیا۔کوفہ کے لوگ جب آگاہ ہو گئے کہ امام حسین علیہ السلام نے یزید کی بعیت نہیں کی تب وہاں سے 18 ہزار کے قریب خطوط لکھے گئے۔
3) امام حسین علیہ السلام نے انکار کر دیا:
امام حسین علیہ السلام کا بیعت نہ کرنا یعنی معترض ہونا ،قبول نہ کرنا، زید کی اطاعت کو لازمی نہ سمجھنا بلکہ اس کی مخالفت کو واجب سمجھنا۔ وہ کہتے تھے کہ بیعت کرو امام حسین علیہ السلام فرماتے تھے بیعت نہیں کروں گا اب اس تقاضے کے مقابلے میں اس عامل کے مقابلے میں امام حسین علیہ السلام کا وظیفہ کیا گیا؟ انکار کے علاوہ اور کوئی وظیفہ نہیں بنتا، میں بیعت نہیں کروں گا ،اس کے علاوہ کوئی اور بات نہیں ،کیا بیعت کرو گے؟ نہیں اگر بیعت نہیں کرو گے تو قتل کر دیئے جاؤ گے!
میں قتل ہونے کے لیے تیار ہوں لیکن بیعت نہیں کروں گا یہاں امام علیہ السلام کا جواب فقط “نہ” ہے۔
4) امام حسین علیہ السلام کو بیعت کے لئے طلب کرنا:
حاکم مدینہ بنی امیہ خاندان میں سے ایک تھا اس نے امام علیہ السلام کو طلب کیا۔ آپ علیہ السلام اس وقت مسجد نبوی میں تھے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ آپ علیہ السلام کے ہمراہ تھے آپ علیہ السلام کو بتایا کہ مدینہ کے حاکم نے طلب کیا ہے وہ آپ علیہ السلام سے کچھ کہنا چاہتا ہے آپ علیہ السلام نے قاصد سے کہا تم جاؤ ہم بعد میں آتے ہیں۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا اس وقت حاکم نے ہمیں طلب کیا ہے تو آپ کیا اندازہ کر سکتے ہیں؟
امام علیہ السلام فرماتے ہیں:
میرا اندازہ یہ ہے کہ ان کا حاکم فوت ہوچکا ہے اب ہمیں بیعت کے لئے بلایا جا رہا ہے۔
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا:
آپ علیہ سلام نے درست اندازہ لگایا میں بھی یہی سوچ رہا ہوں اب آپ علیہ السلام کیا کریں گے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: میں جاؤں گا تم کیا کرو گے؟
ابھی دیکھتا ہوں کہ کیا کرنا چاہیے۔
5) آخری سانس تک بیعت سے انکار:
یزید نے اپنے خط میں خاص طور پر یہ لکھا: ” امام حسین علیہ السلام سے بیعت لینے کے لیے سخت اور موثر طریقہ اختیار کیا جائے جب تک بیعت نہ کر لیں انہیں چھوڑا نہ جائے۔”
امام حسین علیہ السلام بڑی شدت سے اس تقاضے کے مقابلے میں کھڑے ہوگئے اور کسی بھی صورت میں یزید کی بعیت کے لئے آمادہ نہ ہوئے جواب منفی تھا اور یہ منفی جواب حیات امام حسین علیہ السلام کے آخری روز تک برقرار رہا۔
6) شہید عقیدہ:
معاویہ کے اس دنیا سے چلے جانے سے پہلے اور بعد میں اسی طرح یزید کے دور میں چاہے امام حسین علیہ السلام مدینہ تھے یا مکہ میں راستے میں تھے یا کربلا میں، یہ بنوامیہ فقط ایک امتیاز چاہتے تھے۔ اگر امام حسین علیہ السلام انہیں یہ امتیاز دے دیتے پھر انہیں امام علیہ السلام سے کوئی غرض نہیں تھی بلکہ انعام و اکرام سے بھی نوازتے لیکن امام علیہ السلام نے برداشت کیے اور شہادت کو گلے لگایا لیکن وہ جس امتیاز کے خواہاں تھے حاصل نہ کر سکے ،وہ امتیاز رائے اور عقیدت کو فروخت کرنا تھا اس دور میں بلیڈ بکس یا انتخاب کا طریقہ کا رائج نہیں تھا اس دور میں بیعت آج ووٹ دینے کے مترادف ہے۔ پس اگر امام حسین علیہ السلام ایک غیر مشروع دے دیتے تو ایسے شہید نہ ہوتے مگر امام علیہ السلام نے رائے اور عقیدہ کو فروغ نہیں کیا۔
7) تبلیغ سے استفادہ:
تحریک حسینی میں تبلیغ سے استفادہ کرنے کا معنی اس وقت درست ہے کہ جب ہم اس تحریک میں فقط بیعت سے انکار کو عامل نہ سمجھیں اور دو عوامل یعنی کوفہ کے لوگوں کی دعوت قبول کرکے زمام امور اپنے ہاتھ میں لینا اور دوسرا عامل امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو بھی ساتھ رکھیں البتہ کوفہ کی خاموشی کے بعد تبلیغ سے جتنا بھی استفادہ ہو سکا وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے مخصوص ہے۔
Add Comment