سورۃ مائدہ کے شروع میں یہ آیت مذکورہ ہے:
الیوم یئس الذی کفرو من دینکم فلا تخشوھم واخشون الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم السلام دینا
(سورۃ مائدہ آیت 3)
” اور کفار تمہارے دین سے مایوس ہوگئے ہیں لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔ آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا ہے اور اپنی نعمتوں کو تمام کردیا ہے اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنا لیا ہے۔”
شیعہ ایک بات کہتے ہیں اور اس کا دعویٰ کرتے ہیں کہ آیات کے مضمون سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے اور تاریخ سے بھی لہذا اس پر دو نوعیت سے بحث ہونی چاہیے ایک یہ کہ آیات کا مضمون اس کی تائید کرتا ہے اور دوسرا تاریخ بھی اس کی مؤید ہے۔
(1) تاریخ کے آئینہ میں:
یہ تاریخ کا بڑا ہے تفصیلی مسئلہ ہے زیادہ تر کتابیں جو اس موضوع پر لکھی گئی ہیں ان میں اکثر و بیشتر اس پر انحصار کیا گیا ہے کہ تاریخ و حدیث کی روشنی میں یہ بات ثابت کریں کہ آیت ” الیوم یئس الذی کفرو من دینکم فلا تخشوھم واخشون الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم السلام دینا” غدیر خم میں نازل ہوئی ہے۔ کتاب ” الغدیر” ان نے اسی بات کو ثابت کیا ہے حدیث کی کتابوں کے علاوہ مورخین کا نقطہ نگاہ بھی یہی ہے اسلام کی قدیم ترین ،عمومی اور معتبر ترین تاریخ کی کتاب “تاریخ یعقوبی” ہے جسے شیعہ و سنی دونوں معتبر جانتے ہیں۔ مرحوم ڈاکٹر آیتی نے کتاب کی دونوں جلدوں کا فارسی میں ترجمہ کیا ہے کتاب بہت ہی متقن و محکم ہے اور تیسری صدی ہجری کے اوائل میں غالباً عہد مامون کے بعد متوکل کے زمانہ میں لکھی گئی ہے یہ کتاب جو فقط تاریخ کی کتاب ہے اور حدیث سے اس کا تعلق نہیں ہے۔ ان بہت سی کتابوں میں سے ایک ہے جس میں غدیر خم کا واقعہ لکھا گیا ہے اس کے علاوہ اہل سنت کی لکھی ہوئی دوسری کتابیں بھی ہیں جنہوں نے غدیر کے واقعہ کو لکھا ہے۔
روایت یوں ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آخر عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے دو ماہ پہلے کا حج تھا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات 28 صفر یا اہل سنت کے مطابق بارہ ربیع الاول کو واقع ہوئی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 18 ذی الحجہ کو غدیر خم پہنچے۔ غدیر کا واقعہ شیعوں کے مطابق وفات پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو ماہ دس روز قبل اور اہل سنت کے مطابق دو ماہ چوبیس روز پہلے پیش آیا ہے۔ واپس ہوتے ہوئے جب غدیر خم پہنچے “جو جحفہ” کے شاید آپ میں سے بعض حضرات جحفہ گئے ہوں گے جحفہ کے بعد جدہ آتا ہے اس جگہ فتوؤں میں اختلاف ہے کہ جدہ سے احرام باندھا جاسکتا ہے یا نہیں۔ یہ اختلاف بھی حقیقتاً فتوائی اختلاف نہیں ہے بلکہ جو جغرافیائی ہے کیونکہ وہ جگہ جو کسی ایک میقات کے مقابل ہو وہاں سے احرام باندھا جا سکتا ہے ایک جغرافیہ دان جو عرب کے جغرافیہ سے بخوبی واقف ہو شاید جو کسی ایک میقات کے مقابل ہونے یا نہ ہونے کی دقیق طور سے تعبین کر سکتا ہے مکہ اور مدینہ میں عرب کا نقشہ دیکھنے کے بعد یہ نظر آتا ہے کہ جدا بھی بعض میقاتوں کے روبرو آتا ہے شرط بھی ہے کہ وہ نقشہ درست رہا ہو جو لوگ جدہ سے مکہ مکرمہ جانا چاہتے ہیں اور احتیاط کی بنا پر کسی ایک واقعی میقات سے احرام باندھنا چاہتے ہیں وہ جدہ سے جحفہ آتے ہیں جحفہ مدینہ کے شاہراہ کے نزدیک ہے یہ اہل شام کا میقات ہے شام مکہ کے شمال مغرب میں واقع ہے چنانچہ جب لوگ شام سے مکہ کی طرف آتے تھے تو کچھ مسافت طے کرنے کے بعد جحفہ پہنچتے تھے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرف سے آنے والوں کے لیے اسے میقات قرار دیا غدیر خم جحفہ کے نزدیک واقع ہے اور ایسی جگہ ہے کہ جب مسلمان سے واپس ہوتے ہوئے اس جگہ پر پہنچتے تھے تو وہیں سے الگ الگ سمتوں میں متفرق ہو جاتے تھے اہل مدینہ، مدینہ کی جانب اور دوسرے شہروں والے اپنی اپنی منزلوں کی طرف نزدیک ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قافلہ روک دیا اور اعلان فرمایا کہ :
میں لوگوں سے ایک اہم بات کہنا چاہتا ہوں یہ آیات بھی وحی نازل ہوئیں اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلم کے حکم سے اونٹوں کے کچاؤں اور دوسری چیزوں کے ذریعہ ایک اونچا منبر بنایا گیا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بالاۓ منبر تشریف لے گئے اور ایک مفصل خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے دریافت فرمایا: “الست اولی فیکم من انفسکم قالو بلی۔”
تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا” :من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ” اسی کے بعد یہ آیت نازل ہوئی: “الیوم یئس الذی من دینکم فلا تخشوھم واخشون الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم السلام دینا۔”
اگر ہم اس کے تاریخی پہلو پر بحث کرنا چاہیں تو شیعہ و سنی اور خاص طور سے اہل سنت کی ایک ایک کتاب کا تحقیقی جائزہ لینا ہو گا جنہوں نے اس واقعہ نقل کیا ہے ان چیزوں کا کتاب “الغدیر” یا اس کے جیسی دوسری کتابوں میں جائزہ لیا گیا ہے ابھی چند سال پہلے نشر حقائق ” مشہد” سے غدیر کے موضوع پر ایک مختصر اور جامع کتاب شائع ہوئی ہے جس کا مطالعہ افادیت سے خالی نہیں ہے۔
شیعہ ،تاریخی حیثیت سے ایک استدلال یہ کرتے ہیں کہ جب آیت ” الیوم اکملت لکم دینکم” سے لفظی طور پر ظاہر نہیں ہوتا کہ ” الیوم” سے مراد کون سا دن ہے تو اس آیت کی تاریخ و شان میں نزول کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ نتیجہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک، دو یا دس نہیں بلکہ متواتر طور پر روایات یہ بیان کرتی ہیں کہ یہ آیت غدیر کے روز نازل ہوئی ہے جب پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی علیہ السلام کو اپنا جانشین مقرر فرمایا تھا۔
(2) آیت میں موجود قرآن کی روشنی میں:
لیکن ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا آیت میں موجود قرآن بھی ان نکات کی تائید کرتے ہیں جن کی مؤید تاریخ ہے؟ آیت یہ ہے: ” الیوم یئس الذی کفرو من دینکم”
آج یا اس روز کفار تمہارے دین سے مایوس ہوگئے اسے ہم قرآن کی ان آیات کا ضمیمہ قرار دیتے ہیں تم کو تمہارے دین سے منحرف کر دینا چاہتے ہیں اور تمہارے دین کے خلاف سازش کر رہے ہیں تم کو تمہارے دین سے منحرف کر دینا چاہتے ہیں اور تمہارے دین کے خلاف اقدامات میں مصروف ہیں اس کوشش میں اہل کتاب اور غیر اہل کتاب دونوں شامل ہیں:
” ود کثیر من اھل الکتب لو یردونکم من بعد ایمانکم کفار حسد من عند انفسںم”
ترجمہ:
“یعنی بہت سے اہل کتاب تمہارے ایمان پر حسد کرتے ہوئے اس بات کی خواہشمند ہیں کہ تمہیں دوبارہ ایمان سے کفر کی دنیا میں کھینچ لے جائیں۔”
(سورۃ بقرہ آیت نمبر 109)
چنانچہ ایک طرف خدا قرآنی آیات کے ذریعہ ظاہر کر رہا ہے کہ کفار تمہارا دین مٹانے کے درپے ہیں اور دوسری طرف اس آیت میں فرماتا ہے “لیکن اب آج سے کفار مایوس ہوگئے” آج سے وہ تمہارے دین کے خلاف کوئی اقدام نہیں کریں گے۔” فلا تخشوھم” اب ان کی طرف سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ واخشون” مجھ سے ڈرو۔ یعنی آج کے بعد سے تمہارا دین مٹتا رہے ضعیف ہوجائے یا جو کچھ بھی تمہیں پیش آئے بس مجھ سے ڈرو ۔ یہ ” مجھ سے ڈرو” کے کیا معنی ہیں؟ کیا خدا اپنے دین کا دشمن ہے؟ نہیں۔ اسے مختصر سے جملہ کا مفہوم وہی ہے جس کا قرآن کی بہت سے آیتوں میں خدا کی طرف سے اپنے بندوں کو نعمتوں سے محروم کر دینے کے سلسلہ میں ایک بنیادی اصول کے طور پر ذکر ہوا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
“ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیرو ما بانفسھم۔”
(سورۃ رعد آیت نمبر 11)
یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ذلک بان اللہ لم یک مغیر نعمۃ انعمھا علی قوم حتی یغیرو ما بانفسھم”
(سورۃ انفال آیت نمبر 53)
ان آیتوں کا مفہوم یہ ہے کہ خداوند عالم جو نعمت بھی کسی قوم پر نازل کرتا ہے اس سے وہ نعمت اس وقت تک سلب نہیں کرتا جب تک لوگ خود کو اس کے لیے نااہل قرار نہیں دیتے۔ یعنی جب لوگ خود اپنے ہاتھوں سے اس نعمت کو زائل کر دینا چاہیں اور اس کی بے قدر کرنے لگیں تو خدا بھی اس سے وہ نعمت دور کر دیتا ہے یہ قانون دراصل قرآن کا ایک بنیادی اور اساسی قانون ہے۔
Add Comment