شکوک و شبہات کے جواب

قرآن مجید اور معصومین علیہ السلام کے فرمان کی روشنی میں سچ اور جھوٹ کا موازنہ

 سچ اور جھوٹ:

سچ ایک نہایت بہترین اور قابل تعریف صفت ہے کہ جس نے مومن کو آراستہ ہونا چاہیے ، راست گوئی، راست گفتاری ، انسان کی عظیم شخصیت کی علامت ہے۔ جب کہ جھوٹ بولنا اس کے پست، ذلیل اور حقیر ہونے کی نشانی ہے۔
احادیث میں “سچ” اور “جھوٹ” کو کسی انسان کے پہچاننے کا معیار قرار دیا گیا ہے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
“کسی انسان کے اچھے برے ہونے کی پہچان اس کے رکوع اور سجود کو طول دینے سے نہیں ہوتی اور نہ ہی تم اس کے رکوع اور سجود کو طولانی ہونے کو دیکھو کیونکہ ممکن ہے ایسا کرنا اس کی عادت بن چکا ہو کہ جس کے چھوڑنے سے اسے وحشت ہوتی ہے بلکہ تم اس کے سچ بولنے اور امانتوں کے ادا کرنے کو دیکھو۔”
(سفینۃ البحار جلد 2 ، ص 18)
سچے انسان کا ظاہر پرسکون اور باطن مطمئن ہوتا ہے جب کہ جھوٹا آدمی ہمیشہ پریشان اور ظاہری و باطنی اضطراب و تشویش میں مبتلا ہوتا ہے۔ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
“کوئی شخص بھی اپنے دل میں کوئی راز نہیں چھپاتا مگر اس کے چہرے کی رنگت سے اور بے ربط باتوں کے ذریعے اس کی زبان سے ظاہر ہو جاتا ہے۔”
(نہج البلاغہ حکمت 25)
ایک شخص بہت سا مال لے کر چند ساتھیوں کے ساتھ سفر پر گیا ہوا تھا اس کے ساتھیوں نے اسے قتل کرکے اس کے مال پر قبضہ کر لیا جب وہ واپس آئے تو کہنے لگے کہ وہ اثناء سفر میں فوت ہو گیا۔ انہوں نے آپس میں یہ طے کر لیا تھا کہ اگر کوئی ان سے اس کی موت کا سبب پوچھے تو سب یہی کہیں گے کہ بیمار ہوگیا تھا اور اس میں وہ فوت ہو گیا۔ اس شخص کے ورثاء نے حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں ذکر کیا۔ حضرت علی علیہ السلام نے تفتیش کے دوران ان سے دریافت فرمایا کہ تمہارے ساتھی کی موت کس دن اور کس وقت واقع ہوئی؟ اسے کس نے غسل دیا؟ کس نے کفن دیا؟ کس نے نماز جنازہ پڑھائی؟ ہر ایک سے بطور جداگانہ سوالات کیے اور ہر ایک نے ایک دوسرے کے برعکس جواب دیا۔
امام علی علیہ السلام نے تکبیر بلند کی اور تفتیش کو مکمل کرلیا اس طرح سے ان کے جھوٹ کا پردہ فاش ہو گیا اور معلوم ہوگیا کہ ساتھیوں ہی نہیں اسے قتل کیا اور اس کے مال پر قبضہ کر لیا تھا۔
(قضا و تہای حضرت علی علیہ السلام)

سچ انبیاء علیہ السلام کے مقاصد میں سے ایک ہے:

لوگوں کو سچ اور امانت کے راستوں پر چلانا اور جھوٹ اور خیانت سے باز رکھنا انبیاء علیہ السلام الہی کے مقاصد میں سے ایک مقصد رہا ہے جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
“خداوند عالم نے کسی نبی کو نہیں بھیجا مگر وہ نیک اور پسندیدہ اخلاق کے ساتھ ایک تو سچ بولنا اور دوسرے امانتوں کی ادائیگی ہے۔”
(سفینۃ البحار جلد 2، ص 18)
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
“کوئی بندہ ایمان کی حقیقت کو اس وقت تک نہیں پا سکتا جب تک وہ جھوٹ بولنا نہ چھوڑ دے یہ سچ کا جھوٹ ہو اور یہ سچا جھوٹ ہو یا راق کا جھوٹ۔”
(سفینۃ البحار جلد 2، ص 473)

جھوٹ کے اثرات:

جھوٹ ، انسان کی شرافت اور اس کی شخصیت کے منافی ہے یہ انسان کو ذلیل کر دیتا ہے جناب امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
“جھوٹ اور خیانت شریف لوگوں کا شیوہ نہیں ہے۔”
(شرح غرر الحکم جلد 7 ، ص 343)
جھوٹ ایمان کو برباد کر دیتا ہے۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
“جھوٹ ایمان کی تباہی کا موجب ہے۔”
(اصول کافی مترجم جلد 2، ص 339)
جھوٹ دوسرے گناہوں کا سبب بنتا ہے جبکہ سچائی بہت سے گناہوں میں رکاوٹ بنتی ہے جھوٹ بولنے والا کسی گناہ کے ارتکاب سے نہیں ہچکتا اور ہر قسم کی قید و بند کو توڑ ڈالتا ہے اور جھوٹ ترک کرنے سے ان تمام گناہوں کا انکار کر دیتا ہے۔ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
‘خداوند عالم نے تمام برائیوں کو ایک جگہ قرار دیا ہے اور اس کی چابی شراب ہے لیکن جھوٹ شراب سے بھی بدتر ہے۔”
(سفینۃ البحار ، جلد 2، ص 473)
جھوٹ کفر کے قریب ہے ایک شخص نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر سوال کیا کہ ” جہنمی کون سے جرم کی وجہ سے زیادہ جہنم میں جائیں گے؟” حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
“جھوٹ کی وجہ سے، کیوں کہ جھوٹ انسان کو فاسق و فجور اور ہتک حرمت کی طرف لے جاتا ہے ، فسق و فجور کی طرف اور کفر جہنم کی طرف لے جاتا ہے۔”
(مستدرک الوسائل جلد 2، ص 101)
جھوٹ بولنے والے پر کوئی اعتماد نہیں کرتا ، جھوٹ بولنے سے انسان کی شخصیت کا اعتبار ختم ہو جاتا ہے اور دروغ گوئی اس کے بے آبرو ہو جانے کا سبب بن جاتی ہے جھوٹے چروا کی داستان آپ نے کتابوں میں پڑھی ہوگی شیر آیا، شیر آیا چلا کر اپنا اعتماد کھو دیا تھا۔ چنانچہ ایک دن واقعی شیر کا شکار ہو گیا۔ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
“جو شخص جھوٹا مشہور ہو جائے لوگوں کا اعتماد اس سے اٹھ جاتا ہے۔”
(شرح غرر الحکم جلد 7، ص 245)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
“جو جس قدر زیادہ جھوٹا ہوگا، اسی قدر زیادہ ناقابل اعتماد ہو گا۔”
( اصول کافی مترجم جلد 4، ص 38)

جھوٹ کیوں بولا جاتا ہے؟

ہر ایک گناہ اور برا کام ان اسباب و علل کی وجہ سے سرزد ہوتا ہے جو کہ انسان کے اندر ہی اندر پروان چڑھتے رہتے ہیں لہٰذا گناہوں کا مقابلہ کرکے ان اسباب و علل کا خاتمہ کر دینا چاہیے۔ جھوٹ ایسی بری عادت کی کئی اسباب بتائے گئے ہیں جنہیں ہم ذیل میں اختصار کے ساتھ ذکر کر رہے ہیں۔

احساس کمتری:

بعض لوگ چونکہ اپنے اندر اپنی اہمیت ہے یا کوئی خاص ہنر نہیں پاتے ، لہٰذا کچھ جھوٹی اور بے سروپا باتوں کو جوڑ کر لوگوں کے سامنے اپنی کمی کی تلافی کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے آپ کو معاشرے کی ایک اعلیٰ شخصیت ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:
“جھوٹا شخص حساس کمتری کی وجہ سے جھوٹ بولتا ہے۔”
(اصول کافی مترجم جلد 4، ص 38)

سزا اور جرمانہ سے بچنے کے لیے:

کچھ لوگ لوگ سزا کے خوف سے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں اور اس طرح وہ یا تو سرے ہی سے جرم کا انکار کر دیتے ہیں ہیں یا پھر اپنے جرم کی غلط توجیہہ اور تاویل کرتے ہیں اور اپنے جرم کا اقرار کرنے پر قطعاً آمادہ نہیں ہوتے اور جرم کی سزا بھگتنے یا جرمانہ ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

منافقت اور دوغلی پالیسی:

منافق اور دوغلے لوگ جھوٹ کے پردے میں خوشامدانہ اور چاپلوسانہ رویہ اپنا کر ایسی حرکتوں کا کرتے ہیں کہ جس سے معاشرے کے افراد کی توجہ اپنی طرف مبذول کر کے اپنے ناپاک عزائم کو پورا کر لیتے ہیں۔ خداوند عالم نے سورۃ بقرہ کے اوائل میں اس طریقہ کار کو منافقین کی صفت قرار دیا ہے اور فرمایا ہے:
“جب منافقین، مومنین سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان دار ہیں اور جب اپنے شیطان صفت لوگوں سے تنہائی میں ملاقات کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں ہم تو مومنین کے ساتھ ٹھٹھا مذاق کرتے ہیں۔”
(سورۂ بقرہ آیت 14)

ایمان کا فقدان:

قرآن مجید اور روایات سے پتہ چلتا ہے کہ دروغ گوئی کی ایک بنیادی وجہ ایمان کا کلی طور پر فقدان یا ایمان کی کمزوری ہے قرآن مجید میں ارشاد ہے:
“جھوٹ تو صرف وہی لوگ گھڑتے ہیں جو خدا کی آیات پر ایمان نہیں رکھتے اور یہی لوگ ہی جھوٹے ہیں۔”
(سورۂ نحل آیت 105)
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
“جھوٹ کی کثرت دین و ایمان کو برباد کر دیتی ہے”
(شرح غرر الحکم،جلد 7، ص 344)

جھوٹ کا علاج:

اجمالی طور پر جھوٹ کے اسباب کو بیان کر دیا گیا ہے اختصار کے ساتھ اس کا علاج بھی قلمبند کر رہے ہیں:
1) احساس کمتری کو دور کیا جائے۔
2) شجاعت و جوانمردی کی صفت کو تقویت دی جائے تاکہ بےخوف و خطر اور بغیر جھوٹ کا سہارا لیے حقائق اور واقعات کو کم و کاست بیان کر کے سزا اور جرمانہ کو خندہ پیشانی سے قبول کر لیا جائے۔
3) دوغلی پالیسی اور منافقت کا علاج کیا جائے جو کہ جھوٹ کی اصل وجہ ہے۔
4) اپنے اندر ایمان اور تقویٰ کے درجات کو بلند سے بلند تر کیا جائے کیونکہ ایمان اور تقوی کا درجہ جس قدر بلند تر ہوگا جھوٹ اور بری عادتوں سے اسی قدر جان چھوٹ جائے گی۔
5) قرآن مجید کی ان آیات اور احادیث معصومین علیہ السلام کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کیا جائے اور ان میں خوب غور و خوص کیا جائے جو جھوٹ کی مذمت میں وارد ہوئی ہیں اور اسے ہلاکت اور بدبختی کا موجب قرار دیتی ہیں۔
6) اس بات کو پیش نظر رکھا جائے کہ جھوٹے انسان کی قدر و قیمت معاشرے میں گر جاتی ہے کوئی شخص اس کی باتوں پر اعتماد نہیں کرتا اور نہ ہی اس کا احترام کرتا ہے۔
7) ایسی آیات اور روایات میں خوب غور و فکر کیا جائے جو صدق و سچائی کی مدح کرتی ہیں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا:
“غور کرو کہ! حضرت علی علیہ السلام کو کن وجوہات کی بنا پر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس قدر  قرب اور مقام و منزلت حاصل ہوئی تم بھی وہی کام کرو ، یقیناً حضرت علی علیہ السلام سچائی اور ایمانداری کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس قدر قریب ہوتے تھے۔