شہزادی کونین حضرت فاطمتہ الزہرا سلام اللہ علیہا کی صداقت پر قرآن کریم گواہ ہے۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ترجمہ:
“پھر اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! جو تم سے حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں حجت کریں بعد اس کے کہ تمہیں علم آچکا تو ان سے فرما دو: آؤ ! ہم بلائیں اپنے بیٹے اور تمہارے بیٹے اور اپنی عورتیں اور تمہاری عورتیں اور اپنی جانیں اور تمہاری جانیں۔ پھر مباہلہ کریں تو جھوٹوں پر اللہ تعالی کی لعنت ڈالیں۔”
(سورۂ آل عمران: آیت 60)
امام اہل سنت و الجماعت امام احمد رضا خان بریلوی اس آیت کی تفسیر میں کنزالایمان فی ترجمہ القرآن، ص 103 پر تحریر فرماتے ہیں:
شان نزول نصاریٰ نجران کا ایک وفد سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آیا اور وہ لوگ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہنے لگے:
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گمان کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے ہیں؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں! اس کے بندے اور اس کے رسول علیہ السلام اور اس کے کلمے ہیں جو کنواری بتول حضرت مریم سلام اللہ علیہا کی طرف القاء کیے گئے۔
نصاریٰ یہ سن کر بہت غصہ میں آئے اور کہنے لگے: اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بے باپ کے کسی انسان کو دیکھا ہے؟
اس سے ان نصاریٰ کا مطلب یہ تھا کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں (معاذاللہ)۔
اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور یہ بتایا گیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام صرف بغیر باپ کے ہوئے اور حضرت آدم علیہ السلام تو ماں اور باپ دونوں کے بغیر مٹی سے پیدا کیے گئے تو جب تم انہیں اللہ کی مخلوق اور بندہ مانتے ہو تو پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کی مخلوق اور اس کا بندہ ماننے میں کیا تعجب ہے؟
جب حضرت محمد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نصاریٰ نجران کو یہ آیت پڑھ کر سنائی اور مباہلہ کی دعوت دی تو وہ کہنے لگے: ہم غور اور مشورہ کر لیں تو پھر کل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جواب دیں گے۔ جب وہ نصاریٰ جمع ہوئے تو انہوں نے اپنے سب سے بڑے عالم اور صاحب رائے شخص “عاقب” سے کہا: اے عبدالمسیح! اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
اس نے کہا: اے جماعت نصاریٰ! تم پہچان چکے ہو کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی مرسل تو ضرور ہیں اگر تم نے ان سے مباہلہ کیا تو سب ہلاک ہو جاؤ گے۔ اب اگر نصرانیت پر قائم رہنا چاہتے ہو تو انہیں چھوڑو اور اپنے گھر کو لوٹ چلو۔ یہ مشورہ ہونے کے بعد وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں تو امام حسین علیہ السلام ہیں اور دست مبارک میں امام حسن علیہ السلام کا ہاتھ ہے اور حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور حضرت علی علیہ السلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے ہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمارہے ہیں کہ جب میں دعا کروں تو تم سب آمین کہنا۔
نجران کے سب سے بڑے نصرانی عالم پادری نے جب ان حضرات کو دیکھا تو کہنے لگا: اے جماعت نصاریٰ! میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ لوگ اللہ سے پہاڑ کو ہٹا دینے کی دعا کریں تو اللہ تعالی پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹا دے گا لہذا ان حضرات سے مباہلہ نہ کرنا ورنہ ہلاک ہوجاؤگے اور قیامت تک روئے زمین پر کوئی نصرانی باقی نہ رہے گا۔ یہ سن کر نصاریٰ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ مباہلہ کی تو ہماری رائے نہیں ہے آخر کار انہوں نے جزیہ دینا منظور کیا مگر مباہلہ کے لئے تیار نہ ہوۓ۔
سید عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے! نجران والوں پر عذاب قریب آ ہی چکا تھا اگر وہ مباہلہ کرتے تو بندروں اور سوروں کی صورت میں مسخ کر دیے جاتے اور جنگل آگ سے بھڑک اٹھتا اور نجران اور وہاں کے رہنے والے پرند تک نیست ونابود ہو جاتے۔ اور ایک سال کے عرصہ میں تمام کے تمام نصاریٰ ہلاک ہو جاتے۔
(کنز الایمان فی ترجمہ القرآن، تفسیر سورہ آل عمران، آیت 61، حوالہ نمبر 115، 116، امام احمد رضا خان بریلوی)
نوٹ!
1) آیت مباہلہ پنجتن پاک علیہ السلام کی پاکیزگی اور صداقت کی واضع اور محکم دلیل ہے۔
2) حضرت فاطمتہ الزہرا سلام اللہ علیہ اس آیت میں صدیقۃ الکبریٰ کی حیثیت سے شامل ہیں۔
3) آیت مباہلہ کے بغیر شہزادی کونین رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اکلوتی بیٹی ہیں اگر سرکار رسالت مآب کی کوئی اور بیٹی ہوتی تو وہ بھی مباہلہ میں شامل ہوتی۔
4) صدیقۃ الکبریٰ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا بعد از رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا حق لینے کے لیے مسلمانوں کے دربار میں اکیلے گئیں۔ اگر حضرت رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی اور حقیقی بیٹی ہوتی تو وہ بھی اپنا حق لینے کے لیے دربار میں ضرور پیش ہوتی تاریخ انسانیت میں سوائے بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے کوئی اور مثال نہیں ملتی۔
5) صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو جھٹلانے والوں نے نہ صرف یہ کہ بی بی صدیقۃ الکبریٰ سلام اللہ علیہا کو جھٹلایا بلکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی مقدس کتاب قرآن مجید اور حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی جھٹلایا۔
6) مخدومہ کونین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو شہید کرنے والوں نے اکیلے سیدہ عالمین کو شہید نہیں کیا بلکہ انہوں نے پنجتن پاک اور آیت مباہلہ کو بھی شہید کیا۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا دشمن اللہ تعالیٰ اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دشمن ہے:
سعید بن مسیب نے ابن عباس سے روایت بیان کی ہے کہ ان کا بیان ہے:
ایک دن حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حضرت علی علیہ السلام، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا، حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام بھی موجود تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کے لیے ہاتھ بلند فرمائے اور بارگاہ توحید میں عرض کیا:
“پروردگار! تو خوب جانتا ہے کہ یہی میرے اھلبیت علیہ السلام ہیں اور میرے نزدیک انسانوں میں سب سے زیادہ مکرم اور عزیز ہیں۔ پس تو دوست رکھ اسے جو ان کو دوست رکھے اور دشمن رکھ اسے جو ان سے دشمنی رکھے مدد کر اس کی جو ان کی مدد کرے اور ان سے ہر قسم کی نجاست و گندگی کو دور رکھ ان کو ہر گناہ سے معصوم قرار دے اور ان کی مدد فرما بذریعۂ روح القدس۔”
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی علیہ السلام کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: اے علی علیہ السلام! تم میری امت کے امام ہو اور میرے بعد تم میرے خلیفہ و جانشین ہو، راہ جنت میں مومنین کے قائد و رہنما ہو گویا میں اپنی بیٹی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ محشر کے دن نور کے ناقہ پر سوار ہو کر سوار ہو کر آئی ہیں اس کی داہنی جانب ستر ہزار فرشتے، بائیں جانب ستر ہزار فرشتے، آگے ستر ہزار فرشتے اور پیچھے ستر ہزار فرشتے ہیں وہ میری امت کی مومنہ عورتوں کی جنت کی طرف قیادت کر رہی ہیں۔
پس جو عورت دن رات میں پانچ وقت کی نماز پڑھے گی، ماہ رمضان میں روزے رکھے گی، حج بیت اللہ الحرام کرے گی، اپنے مال میں سے زکوۃ ادا کرے گی، اپنے شوہر کی اطاعت کرے گی اور میرے بعد حضرت علی علیہ السلام کی ولایت و امامت کا اقرار کرے گی، وہ میری بیٹی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شفاعت کے ذریعہ سے داخل جنت ہوگی کیونکہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا تمام عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں۔
کسی نے پوچھا: یا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کیا یہ اپنے زمانے کی عورتوں کی سردار ہیں؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ صفت تو حضرت مریم بنت عمران علیہ السلام کی ہے۔ میری بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہ تو تمام عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں خواہ وہ اولین میں سے ہوں یا آخرین میں سے۔
جب یہ محراب عبادت میں کھڑی ہوتی ہے تو ستر ہزار مقرب فرشتے آکر اسے سلام کرتے ہیں اور اسے ان ہی الفاظ میں خطاب کرتے ہیں جن الفاظ سے جناب مریم سلام اللہ علیہا کو خطاب کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں:
” اے فاطمہ سلام اللہ علیہا! اللہ نے تمہیں منتخب کیا اور ہر برائی سے پاک رکھا اور تمام عالمین کی عورتوں پر تمہیں فضیلت دی۔”
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
“فاطمہ سلام اللہ علیہا میری پارۂ جگر ہے، میری نور نظر ہے ، میری میوۂ دل ہے۔ جس نے اس کو رنج پہنچایا اس نے مجھے رنج پہنچایا۔ جس نے اس کو خوش رکھا اس نے مجھے خوش رکھا۔ یہ میرے اہل بیت علیہ السلام میں سب سے پہلے مجھ سے ملحق ہو گی لہٰذا میرے بعد اس کا بہت خیال رکھنا اور حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام میرے فرزند ہیں جو میرے شجر زندگی کے دو پھول ہیں: یہ دونوں جوانان اہل جنت کے سردار ہیں ان دونوں کا اتنا ہی خیال رکھنا جتنا تم اپنی چشم و گوش کا دھیان رکھتے ہو۔”
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلند کئے اور فرمایا:
“پروردگار! تو گواہ رہنا کہ میں اس شخص سے محبت کرتا ہوں جو ان میرے اہل بیت علیہ السلام سے محبت کرتا ہے اور میں اس کو دشمن رکھتا ہوں جو ان سے دشمنی رکھتا ہے۔ میری صلح اس سے ہے جو ان سے صلح رکھتا ہے میری جنگ اس سے جو ان سے جنگ کرتا ہے میری عداوت ہے ان سے جو ان سے عداوت رکھتا ہے۔ میری دوستی ہے اس سے جو ان سے دوستی رکھتا ہے۔
(بحار الانوار،۔ جلد 3، ص 34 تا 35)
Post Views:
1,373
Add Comment