امامت

امامت اور ولایت کے معنی قرآن مجید اور احادیث کی روشنی میں

 امامت کے معنی اور مراتب:

ہماری باعث مسئلہ امامت سے متعلق ہے۔ مسئلہ امامت کو ہم شیعوں کی یہاں غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے جبکہ دوسرے اسلامی فرقوں میں اسے اتنی اہمیت نہیں دی جاتی ہے۔ راز یہ ہے کہ شیعوں کے یہاں امامت کا جو مفہوم ہے وہ دوسرے تمام اسلامی فرقوں سے مختلف ہے اگرچہ بعض مشترک پہلو بھی پائے جاتے ہیں لیکن شیعی عقائد میں امامت کا ایک مخصوص پہلو بھی ہے اور یہی پہلو امامت کو غیر معمولی اہمیت کا حامل بنا دیتا ہے مثال کے طور پر جب ہم شیعہ اصول دین کو بیان کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اصول دین ، توحید، عدل، نبوت، امامت اور قیامت کا مجموعہ ہے یعنی امامت کو اصول دین کا جزو شمار کرتے ہیں اہل تسنن بھی ایک طرح جو امامت کے قائل ہیں بنیادی طور سے امامت کے منکر نہیں ہیں وہ اسے دوسری شکل سے تسلیم کرتے ہیں لیکن وہ جس نوعیت سے تسلیم کرتے ہیں اس میں امامت اصول دین کا جزو نہیں ہے بلکہ فروع دین کا جزو شمار کرتے ہیں بہرحال ہم دونوں امامت کے مسئلہ میں اختلاف رکھتے ہیں وہ ایک اعتبار سے امامت کے قائل ہیں اور ہم دوسرے اعتبار سے امامت کو تسلیم کرتے ہیں آخر یہ کیسے ہوا کہ شیعہ امامت کو اصول دین کا جزو مانتے ہیں اور اہل سنت اسے فروع دین کا جزو سمجھتے ہیں؟اس کا سبب وہی ہے جو شیعہ اور اہل سنت کے یہاں امامت کے مفہوم میں فرق ہے۔

امام کے معنی اور مفہوم:

امام کے معنی ہیں پیشوا یا رہبر۔ لفظ امام، پیشوا یا رہبر بذات خود کوئی مقدس مفہوم نہیں رکھتے پیشوا یا رہبر سے مراد ہے آگے آگے چلنے والا، جس کا اتباع یا پیروی کی جائے۔ چاہے وہ پیشوا ہادی، ہدایت یافتہ اور صحیح راہ پر چلنے والا ہو یا باطل اور گمراہ ہو۔ قرآن مجید نے بھی لفظ امام کو دونوں معنی میں استعمال کیا ہے۔ ایک جگہ فرماتا ہے:
“ہم نے ان کو امام قرار دیا ہے جو ہمارے حکم سے ہدایت و رہبری کرتے ہیں۔”
سورہ انبیاء آیت 73
ایک اور جگہ فرمایا:
“وہ امام جو لوگوں کو جہنم کی طرف بلاتے ہیں۔”
سورہ قصص 41
یا
مثلاً: فرعون کے لیے بھی امام سے ملتے جلتے مفہوم کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
“وہ قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے چلے گا۔”
سورہ ھود آیت 98
معلوم ہوا کہ لفظ امام سے مراد پیشوا یا رہبر ہے ہمیں اس وقت باطل پیشوا یا رہبر سے کوئی سروکار نہیں ہے یہاں صرف پیشوا یا رہبر کا مفہوم عرض کرنا مقصود ہے۔ پیشوائی یا امامت کے چند مقامات ہیں جن میں سے بعض مفاہیم میں وہ سرے سے اس طرح کی امامت کے منکر ہیں۔ نہ یہ کہ وہ امامت کے قائل تو ہوں مگر مصداق میں ہم سے اختلاف رکھتے ہوں۔ جس امام کے وہ قائل ہیں لیکن اس کی کیفیت و شکل اور افراد میں ہم سے اختلاف رکھتے ہیں اس سے مراد معاشرہ کی رہبری و سر پرستی ہے۔ چنانچہ یہی یا اس سے ملتی جلتی تعبیر زمانہ قدیم سے متکلمین کی کتابوں میں بھی ذکر ہوئی ہے۔ خواجہ نصرالدین طوسی نے اپنی کتاب “تجرید الاعتقاد” میں امامت کی تعریف ان لفظوں میں بیان کی ہے ” ریاستہ عامتہ” یعنی “عمومی ریاست و حکمیت”

امامت اور ولایت کے معنی:

امامت ،ولایت کی یہی حیثیت تشیع اور تصوف کے درمیان مشترک پہلو رکھتی ہے البتہ اس وجہ اشتراک کی تعبیر سے کوئی غلط مفہوم نہیں لینا چاہیے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے اس سلسلہ میں مستشرقین کی باتیں آپ کے سامنے آئیں جو مسئلہ کو اسی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ یہ مسئلہ عرفا کے یہاں بڑے شدومد کے ساتھ مل جاتا ہے اور شیعوں میں بھی صدر اسلام سے ہی موجود تھا مجھے یاد ہے کہ آج سے دس سال پہلے ہنری کار بن نے علامہ طباطبائی سے ایک انٹرویو کے دوران یہ سوال بھی اٹھایا تھا کہ اس مسئلہ کو شیعوں نے متصوفہ کے یہاں سے لیا ہے یا متصوفہ نے شیعوں سے اپنایا ہے؟ گویا یہ کہنا چاہتا تھا کہ ان دونوں میں سے ایک نے دوسرے سے حاصل کیا ہے، علامہ طباطبائی نے جواب دیا تھا کہ صوفیوں نے اسے شیعوں سے لیا ہے، اس لئے کہ یہ مسئلہ شیعوں کے یہاں اس وقت سے موجود ہے جب نہ تصوف کو یہ شکل حاصل ہوئی تھی اور نہ یہ مسائل ایل ان کے یہاں پیدا ہوئے تھے بعد میں صوفیاء کے یہاں بھی یہ تصور پیدا ہو گیا چنانچہ اگر سوال یہ اٹھے کہ ایک نے دوسرے سے اپنایا تو یہی کہا جائے گا کہ تصوف شیعوں سے صوفیوں کے یہاں پہنچا ہے یہ مسئلہ ایک انسان کامل یا دوسرے الفاظ میں حجت زمانہ کا مسئلہ ہے عرفا اور صوفیاء اس مسئلہ کو بہت اہمیت دیتے ہیں مولانا روم کہتے ہیں:
ہر دور میں ایک ایسا انسان کامل موجود ہے جو اپنے اندر انسانیت کے تمام معنویات و کمالات رکھتا ہو۔ کوئی عہد اور کوئی زمانہ ایسے ولی کامل سے خالی نہیں ہے جسے اکثر لفظ قطب سے بھی تعبیر کرتے ہیں اور ایسے ولی کامل کے لئے جس میں انسانیت کامل طور پر جلوہ گر ہو یہ لوگ ایسے مدارج و مراتب کے قائل ہیں جو ہمارے افکار سے بہت بعید ہیں۔ منجملہ اس کی ایک منزلت یہ بھی ہے کہ ولی لوگوں کے ضمیروں یعنی دلوں پر تسلط رکھتا ہے مطلب یہ کہ وہ ایک ایسی روح کلی ہے جو تمام ارواح کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ یہاں بھی مولانا روم ابراہیم ادھم کی داستان میں، جو ایک افسانہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی، اس سلسلے میں اشارہ کرتے ہیں۔ اصل میں وہ ان افسانوں کا ذکر اپنے مطلب کی وضاحت کرنے کے لئے کرتے ہیں ان کا مقصد تاریخ بیان کرنا نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں:
ابراہیم ادھم دریا کے کنارے گئے اور ایک سوئی دریا میں ڈال دی اور پھر آپ نے اس سوئی کو واپس طلب کیا مچھلیوں نے پانی سے منہ نکالا تو سب کے دہن میں ایک سوئی موجود تھی۔
ہم شیعوں کے یہاں ولایت کا مسئلہ اس عامیانہ تصور کے مقابلے میں بڑا دقیق اور عمیق مفہوم رکھتا ہے۔ ولایت کا مطلب ہے حجت زمان یعنی کوئی زمانہ اور کوئی عہد اس حجت سے خالی نہیں ہے:
“ولولا  الحجۃ لساخت الارض باھلھا” مطلب یہ ہے کہ نہ کوئی ایسا زمانہ گزرا اور نہ کوئی ایسا زمانہ ہوگا جب زمین کسی انسان کامل یا حجت خدا سے خالی رہے۔ شیعہ اس انسان کامل کے لیے عظیم درجات و مراتب کے قائل ہیں ہم اپنی اکثر و بیشتر زیارتوں میں اس طرح کی ولادت و امامت کا اقرار و اعتراف کرتے ہیں یعنی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امام ایسی روح کلی رکھتا ہے جو تمام ارواح کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ بنا برایں مسئلہ امامت کے تین درجے ہیں اگر ہم ان تینوں درجہ کو ایک دوسرے سے جدا نہ کریں تو امامت سے متعلق دلائل میں ہمیشہ شبہات سے دوچار ہوں گے یہی سبب ہے کہ شیعوں میں بھی الگ الگ درجے ہیں۔  بعض شیعہ امامت کا مطلب وہی انسان معاشرہ کی رہبری سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنے بعد رہبری کے لیے معین فرما دیا تھا حضرت ابوبکر رضی اللہ، حضرت عمر رضی اللہ اور حضرت عثمان رضی اللہ انکی جگہ پر غلط آئے یہ لوگ اسی حد تک شیعہ ہیں اور امت کے بقیہ دونوں مرتبوں کا یا عقیدہ نہیں رکھتے یا اس سلسلہ میں سکونت اختیار کرتے ہیں بعض لوگ دوسرے مرحلے کے بھی قائل تر ہیں لیکن تیسرے مرحلہ کو تسلیم نہیں کرتے، کہتے ہیں کہ مرحوم سید محمد باقر درچہ جو آقائے ںروجری کے استاد تھے، امامت کے اس تیسرے مرحلہ کے منکر تھے لیکن شیعہ اور علمائے شیعہ کی اکثریت اس تیسرے مرحلہ کا بھی عقیدہ رکھتی ہے۔دراصل امامت کے موضوع پر تین مرحلوں میں بحث کرنی چاہیے:
1) امامت قرآن مجید کی روشنی میں
2) امامت احادیث کی روشنی میں
3) امامت عقل کی روشنی میں
پہلے مرحلہ میں دیکھنا چاہیے کہ قرآنی آیات پر جسے شیعہ تسلیم کرتے ہیں دلالت کرتی ہیں یا نہیں؟ اور اگر دلالت کرتی ہیں تو کیا امام کو صرف معاشرے کے سیاسی و اجتماعی رہبر کے معنی میں شمار کرتی ہیں یا اس کے دینی مرجعیت حتیٰ کہ معنوی و روحانی ولایت کو بھی بیان کرتی ہیں؟ اس مرحلہ سے فارغ ہونے کے بعد ہم احادیث پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جائزہ لیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امامت کے سلسلہ میں کیا بیان فرمایا ہے اس کے بعد عقل کی روشنی میں اس مسئلہ کا تجزیہ کریں کہ عقل ان تینوں مرحلوں میں امامت کو کس حیثیت سے تسلیم کرتی ہے؟ کیا عقل یہ فیصلہ کرتی ہے کہ معاشرہ کا رہبر ہونے کی حیثیت سے حق اہل سنت کے ساتھ ہے ، اور جانشین پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شورئ کے ذریعے منتخب ہونا چاہیے، یا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اپنا جان نشین معاف فرما دیا ہے؟ اس طرح امامت کی بقیہ دونوں حیثیتوں کے سلسلہ میں عقل کیا کہتی ہے۔

امامت کے بارے میں ایک حدیث:

شیعوں کی معتبر ترین حدیث کی کتاب کافی میں یہ حدیث نقل ہوئی اہل سنت کی کتابوں میں بھی یہ حدیث موجود ہے لیکن اسے ایک روایت میں ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا گیا ہے:
“جو شخص امام کے بغیر مر جائے گویا وہ جاہلیت کی موت مرا۔”

امامت قرآن مجید کی روشنی میں:

قرآن مجید میں کئی آیتیں مذکور ہیں جن سے شیعہ امامت کے سلسلہ میں استدلال کرتے ہیں اتفاق سے ان تمام آیتوں کے سلسلہ میں اہل سنت کی یہاں بھی ایسی روایتیں موجود ہیں جو شیعہ مطالب کی تائید کرتی ہیں۔ ان میں سے ایک آیت یہ ہے:
“اے ایمان والو! بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور وہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوۃ دیتے ہیں۔”
(سورہ مائدہ)

Add Comment

Click here to post a comment